جہانگیر ترین کا یونیورسٹی سے ماہانہ 705روپے تنخواہ وصولی کے بعد ارب پتی بننے تک کے سفر کی کہانی

جہانگیر ترین کا یونیورسٹی سے ماہانہ 705روپے تنخواہ وصولی کے بعد ارب پتی بننے ...
جہانگیر ترین کا یونیورسٹی سے ماہانہ 705روپے تنخواہ وصولی کے بعد ارب پتی بننے تک کے سفر کی کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لودھراں (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماءجہانگیر ترین ایک جیٹ طیارے سمیت اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک اور بڑے زمیندار ہیں لیکن ایک وقت تھا کہ جب وہ صرف 705روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے تھے ۔ اُنہوں نے زندگی میں کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہاکہ ’ انسان کوہمیشہ اللہ تعالی کی دین پر خوش ہوناچاہیے ‘۔اُن کاکہناتھاکہ سیاست اور کاروبارسمیت بڑے کام کیے لیکن زراعت میں بڑا مزاآیا، شاید انسان کا رشتہ مٹی کیساتھ ہے ، اسی وجہ سے اچھالگتاہے ۔
اپنے ویڈیو پیغام میں جہانگیرخان ترین نے بتایاکہ انہوں نے 1974ءمیں بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے ایم بی اے کیا، اس کے بعد پاکستان آگیاکیونکہ یہی خیال تھاکہ اگرامریکہ رہ جاتاتو شاید کبھی واپس نہ آتا۔ وہی کام کرناچاہتاتھا جس کا شوق تھا، سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں نوکری کی ، لیکچررتھا، سات سوپانچ روپے تنخواہ ملتی تھی ، ایک سال ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں پڑھایا، پڑھانا میرے لیے ایک قدرتی چیز تھی ۔اس کے بعد ایک بینک میں تین سال نوکری کی ، فیملی کا دباﺅ تھاکہ استادی چھوڑکر کوئی اور کام کرو، پھران کی بات مان لی ، اچھاتجربہ تھا اور تجویز دوں گاکہ ضرورت ہویانہ ہو، ہرکسی کو نوکری کرنی چاہیے ، ایک ادارے میں آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتاہے ،پلازے کے تہہ خانے میں کام کرتاتھا اور جب شام کو باہر نکلتاتھا تواندھیراہوتاتھاجس کی وجہ سے اکتاگیا۔ایک آدھ دوستوں سے مشورہ کرکے استعفیٰ دیدیااور پھر1978ءمیں ملتان ڈیرے ڈال لیے ،ایم بی اے ہونے کے باوجود والد کے لودھراں میں موجود فارم میں کام کرناشروع کردیا،والد کو کاشتکاری کرنے کی خواہش کابتایاتواُنہوں نے پوچھا کہ بیٹا بینک میں کسی سے لڑائی ہوگئی تو جواب نفی میں تھا۔
جہانگیر ترین کاکہناتھاکہ تین چار سال بعد پتہ چلا کہ میری زمین سے دوکلومیٹردورمحکمہ جنگلات کی بنجر زمین پڑی ہے جو بعد میں فوج کو دیدی گئی ، فوج نے شہداءاور دیگر لوگوں کے نام الاٹ کردی ، وہ یہاں قبضے کیلئے آئے تو زیرزمین پانی کھاراتھا،بڑے بڑے ٹیلے اور کانٹے دار درخت تھے ،بجلی اور سڑک بھی نہیں تھی ، وہ گھبرائے تو ہم نے خریدنا شروع کردی ،بنجر ہونے کی وجہ سے بہت سی سستی ملی ،بیس سال محنت کی ، آج یہاں آموں کا باغ ہے ، شروع میں دوکمروں کا گھربنایاجس میں بڑی خوشی سے بیس سال گزارے ، تین دفعہ آسٹریلیا صرف کاشتکاری سیکھنے گیا، امریکہ سے لوگوں کو بھی بلایااور ایک طرح کی منیجمنٹ ٹیم بنائی کیونکہ دنیا میں اور بھی کام کرنے تھے ۔ وہ گورے جب یہاں آتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ تمہارے ’ونڈشیٹ فارمر‘ ہیں یعنی جوصرف اپنی گاڑی کی کھڑکی سے دیکھتے ہیں ۔آپ خود کام نہ کریں یا آپ کو کچھ پتہ نہ ہوتو کچھ نہیں کرسکتے ، دس سال خودکاشتکاری کی ، اللہ نے کامیاب کیااور آج سب کچھ دنیا کے سامنے ہے ۔

مزید :

لودھراں -