جنرل اسمبلی میں کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ایک عرصے بعد بھارت پر تابڑ توڑ حملے‎

جنرل اسمبلی میں کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ایک عرصے بعد بھارت پر ...
جنرل اسمبلی میں کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ایک عرصے بعد بھارت پر تابڑ توڑ حملے‎

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک (عثمان شامی سے) گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے رواں دور حکومت میں چوتھی مرتبہ خطاب کیا۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی انہوں نے عالمی دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کروائی تاہم اس مرتبہ شدت کہیں زیادہ تھی، اس کی بنیادی وجہ وہ پس منظر ہے جس میں یہ تقریر کی جارہی تھی۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ازخود بے حد زور پکڑچکی ہے اور ساتھ ہی بھارتی فوج کے مظالم میں بھی اسی طرح تیزی آئی ہے۔
ایک عرصے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت تابڑ توڑ حملے کیے گئے ہیں ۔گزشتہ برس بھی کشمیر کا تذکرہ تو کیا گیا تھا لیکن اس قدر زور دار انداز میں نہیں ۔وزیراعظم کی تقریر تقریبا 18منٹ پرمحیط تھی جس میں بیشتر وقت ان کا فوکس بھارت اور کشمیر کے حالات پر تھا ۔برہان وانی کا نام لیتے ہوئے وزیراعظم نے انہیں شہید کہہ کر پکارا اور کشمیری نوجوانوں کا لیڈر قرار دیا ،ان کا تذکرہ پاکستانیوں کیلئے بھی حیران کن تھا اور یہ تاثرات اسمبلی ہال میں موجود پاکستانی صحافیوں کے چہروں پر بھی واضح تھے ،ساتھ ہی وزیراعظم نے بھارتی مظالم کے خلاف دستاویزات بھی اقوام متحدہ پیش کرنے کا اعلان کیا ،انہوں نے اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کو ان کی قراردادیں اور وعدے بھی یاد کروائے .اس میں کوئی شک نہیں کہ توقعات کے عین مطابق وزیراعظم نوازشریف کی اقوام متحدہ میں کی گئی یہ تقریر اب تک کی سب سے زور دار اور ولولہ انگیز تقریر تھی ، ایک طرف وزیر اعظم نے بھرتی مظالم بےنقاب کرتے ہوئے جم کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو دوسری جانب مفاہمت کا راستہ کھلا چھوڑتے ہوئے بھارت کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت بھی دی. 

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ پاکستان ہی ہے جس نے تمام تر ببھارتی کوششوں کے باوجود  اب تک عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر پر زندہ رکھا ہواہے ۔فوری کوئی نتیجہ نہ بھی نکلے لیکن بھارت کیلئے اس مسئلے سے آنکھ چرانا یا کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم کو چھپانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ حالیہ دنوں میں پاکستان نے جس بھر پور انداز میں کشمیریوں کی وکالت کی ہے اس کی توقع شائد کچھ عرصہ قبل تک بھارت کو بھی نہ تھی ،اب جواب میں بھارت کی جانب سے وہی روایتی الزامات لگائے جانے کا امکان ہے ،تاہم وزیراعظم نریندرمودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک نہیں ان کی جگہ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج بھارت کا موقف پیش کریں گی ۔بھارتی وزیراعظم کی عدم موجودگی میں ان کی بات بھی اتنی ہی توجہ سے سنی جائے یہ شائد ممکن نہیں ۔
تقریر سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے ہم منصب سے بھی ملاقات کی. گزشتہ چند روز سے بھارتی میڈیا میں یہ پراپیگنڈہ زور و شور سے جاری تھا کہ اڑی حملے کے بعد چین کیلئے اب پاکستان کی غیر مشروط حمایت جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ چند ایک خبروں اور کالموں میں تو اڑی حملے پر چین کے اظہار افسوس کو بھی پاکستان کیلئے دھچکا تصور کیا گیا تاہم چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں چین کا مؤقف ایک مرتبہ پھر دوٹوک انداز میں واضح کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان کیلئے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کرے گا، چین کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ دنیا بھی اسے بہتر انداز میں سمجھنے کی کوشش کرے گی۔ کہا جاسکتا ہے کہ چینی وزیراعظم کے اس وعدے کے نتیجے میں بھارت کی امیدیں اور پراپیگنڈہ دونوں از خود ہی دم توڑ جائیں گے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں بہرحال اب چین بھی فرق بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر جب تک چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، بھارت کی کوئی سازش کامیاب ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی پاکستان کو تنہا کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان حالات میں چین کی جانب سے ایک مرتبہ پھر کرائی گئی یقین دہانی کو پاکستان کی سفارتی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ روز ہی امریکہ سے پاکستان کیلئے ایک تشویشناک خبر بھی آئی کہ امریکی کانگریس کے دو ارکان ٹیڈ پو اور ڈانا روہراباکر کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرست ریاست قرار دینا ہے۔ بل پاس ہونے کی صورت میں امریکی حکومت کو 90 روز کے اندر کانگریس کو رپورٹ جمع کروانا ہوگی کہ کیا پاکستانی ریاست دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہے، اس کے بعد 30 روز کے اندر سیکرٹری آف سٹیٹ کو ایک اور رپورٹ جمع کروانا ہوگی جس سے یہ یقین کیا جائے گا کہ آیا پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دے دیا جائے۔ یہ بات بظاہر دیکھنے میں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہے کہ کانگریس کے جن 2 ارکان کی جانب سے یہ بل پیش کیا گیا ہے وہ پہلے ہی پاکستان کے جانے مانے مخالف ہیں۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ٹیڈپو ماضی میں بھی بارہا پاکستان پر اس قسم کے الزامات لگاچکے ہیں اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈاناروہراباکر بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کی مخالفت میں سرگرم رہتے ہیں۔ صاف واضح ہے کہ یہ بھارتی لابی کی جانب سے پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔ اس بل سے پاکستان پر میڈیا کوریج کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ تو پڑسکتا ہے لیکن عملی اثرات کوئی نہ ہوں گے کیونکہ اس بل پر بحث یا اس کے منظور ہونے سے قبل کانگریس کی معیاد پوری ہوجائے گی۔ بل پیش کرنے والوں کو بھی یہ اچھی طرح معلوم ہے تاہم پاکستانی حکام کے ردعمل سے تاثر ملتا ہے کہ صحافیوں کی طرح یہ بل ان کیلئے بھی ایک سرپرائز تھا۔ واشنگٹن میں پاکستان سفارتی مشن زیادہ فعال ہو اور امریکی قانون سازوں کے ساتھ لابنگ پر توجہ مرکوز کرے تو شائد کم از کم وقت سے قبل ایسی کوششوں کا علم ضرور ہوجائے۔