کالا باغ ڈیم کی ضرورت و اہمیت
سابقہ حکمرانوں نے چند سیاست دانوں کی خوشنودی اور اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے کالا باغ ڈیم کو متنازعہ قرار دیا اور بزعم ہمیشہ کے لئے سرد خانے میں ڈال دیا .حقیقت یہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا کام جاری رہتا تو صنعت کو سستی اور وافر بجلی ملنا شروع ہو چکی ہوتی۔ ملکی برآمدات میں کئی گنا اضافہ اور دیگر ملکوں کے صنعتکار پاکستان کو صنعت لگانے کے لیے موزوں ترین سمجھتے . بے روزگار ی کا اژدھا قابو کیا جا چکا ہوتا۔
اس طرح عوام کو خوشحالی اور حکمرانوں کو نیک نامی ملتی اللہ تعالی نے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے لئے گونا گوں وسائل سے نواز رکھا ہے .بہترین زرعی زمین دی ہے . چار خوبصورت موسم دیئے ہیں جو فصلوں اور پھلوں کے پکنے میں شاندار کردار ادا کرتے ہیں .ہمارے حکمرانوں نے قدرت کے عطیات سے منہ موڑ کر صرف سیاسی چالوں کو اپنے لیے کافی سمجھا۔
سالانہ کروڑوں فٹ پانی سمندر میں گرا کر ضائع کر رہے ہیں .زرعی زمینیں بعض اوقات پانی کی بوند بوند کو ترستی ہیں،سابقہ حکمرانوں نے مہنگی ترین بجلی کے لئے رینٹل پاور اسٹیشن منگوانا گوارا کر لیا لیکن اپنی منفی ضد چھوڑ کر کالا باغ ڈیم پر کام برداشت نہیں کیا،موجودہ حکومت نے اس حد تک قابل ستائش کام کیا ہے کہ مختلف منصوبوں سے بجلی پیدا کر کے عوام کو اندھیروں اور صنعت کو بندش سے بچا لیا۔ جہاں تک کالا باغ ڈیم کی بات ہے تو کالا باغ ڈیم سے سستی بجلی مہیا ہونے کی صورت میں درآمدات پر خرچ ہونے والا کثیر سرمایہ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے .
کاروباری طبقہ کے نمائندہ ادارے یعنی ایوانہائے صنعت و تجارت کالا باغ ڈیم کی اہمیت اجاگر کرنے اور اس پر کام شروع کے لیے مسلسل زور دے ر ہے ہیں . اس کے لیے لاہور ایوان صنعت و تجارت سمیت متعدد ٹریڈ باڈیز نے ڈیم کی تعمیر پر آواز اٹھانے کے لیے اپنے ہاں سپیشل کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں۔
ان کمیٹیوں کے تحت گاہے گاہے کالا باغ ڈیم بارے سیمینار اور مذاکروں میں ڈیم کی ضرورت و اہمیت اجاگر کی جاتی رہتی ہے ان سیمیناروں اور مذاکروں میں کبھی ڈیم مخالف سوچ سامنے نہیں آئی۔ البتہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ایوانہائے زراعت کو صحیح معنوں میں نمائندہ ادارے بنایا جائے اور ان کے پلیٹ فارم سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے آواز بلند کی جائے .ہمیں یقین ہے کہ ملک کی تمام اکائیوں کی بھاری اکثریت اس ڈیم کے حق میں ہے، جہاں تک کسی شہر یا علاقے کو کالا باغ ڈیم سے نقصان کا اندیشہ ہے تو ملک کے اہم ترین آبی ماہرین اور واپڈا کے سابق چیئرمین بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ڈیم بننے کی صورت میں نوشہرہ سمیت کسی علاقے کی زمینوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے .ڈیم کی مخالفت کرنے میں چند کھاتے پیتے زمیندار نمایاں ہیں جو اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے سرحد پار کے حکمرانوں کے مقاصد کو تقویت پہنچا رہے ہیں . ایسے افراد وطن عزیز کی زرخیز زمینوں کو بنجربنانے سے گریز نہیں کر رہے .قومی اسمبلی میں زمینداروں کی بھاری اکثریت ہے . انہیں چاہئے کہ پہلے قدم کے طور پر قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں قرار داد منظور کرکے حب الوطنی اور ملکی ضرورتوں کے ادراک کا ثبوت دیں۔