دو سال تک مہنگائی کا عذاب بھگتیں
سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ مہنگائی مزید دوسال رہ سکتی ہے، شرح سود میں اضافے کے باعث مہنگائی بڑھی، شرح سود7.50 فیصد سے بڑھ کر13.25فیصد پر پہنچ گئی تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اگلے چوبیس ماہ، یعنی دو سال میں مہنگائی کی شرح5.7فیصد تک آ جائے گی،وہ سیکرٹری خزانہ عمر حمید، ماہر معیشت ثاقب شیرانی اور معروف بزنس مین اشفاق تولہ کے ہمراہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کو مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے بریفنگ دے رہے تھے، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کی کنونیئر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کی صدارت میں ہوا۔ جمیل احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موازنہ بھارت اور بنگلہ دیش کے پالیسی ریٹ سے نہیں کیا جا سکتا، اشفاق تولہ نے کمیٹی کو بتایا کہ بھارت میں افراطِ زر3.2، بنگلہ دیش میں 5.2 اور پاکستان میں 11.6 فیصد ہے، اس وقت کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہو رہی،ایک بڑا موٹر وہیکل پلانٹ بند ہو گیا، ایکسچینج ریٹ بڑا مسئلہ ہے،جب بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوا تو معاشی طور پر بھی اس کے اثرات پڑے،آئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش نے اپنی ہی حکومت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ صحت اور تعلیم کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ بلڈ کینسر کے مریض فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں، ہیپاٹائٹس کے مریض کو اگر دوا نہیں ملے گی تو کفایت شعاری کا کیا فائدہ ہو گا۔کُتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہے، ہیلتھ کارڈ میں ایسے ایسے ہسپتال شامل کئے گئے ہیں جن کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔
ماہرین معیشت تو مہنگائی کو اپنے زاویہ سے دیکھتے ہیں،لیکن بیروزگاری اور اجرتوں میں کمی کے باعث جن لاکھوں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہو گئی ہے،انہیں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں بھی مشکل پیش آر ہی ہے اور وہ خوراک جیسی ضروریات بھی اچھی طرح پوری کرنے کے قابل نہیں رہے، ایسے میں اگر انہیں مہنگا علاج کرانے کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔لاہور میں کینسر کے مریضوں اور اُن کے لواحقین نے گزشتہ دِنوں جو مظاہرہ کیا اس کی تفصیلات جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔شہباز شریف کی حکومت نے سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کے تحت ان لوگوں کو مفت کینسر کی ادویات فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیا تھا، اب پنجاب کی حکومت نے کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ نہیں کیا کہ غریبوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے،ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت ختم کر دی گئی ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ چند سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور چار چار لاکھ روپے کی کینسر کی ادویات کہاں سے خریدیں گے؟
انصاف صحت کارڈ کو تو خود تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر رمیش نے نکتہ چینی کا ہدف بنایا ہے۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحت کارڈ میں ایسے ہسپتال بھی رکھے گئے ہیں جن کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں،حکومت کی کفایت شعاری کی مہم غریبوں کے علاج کے آڑے آ رہی ہے، تو پھر ان غریبوں کا علاج کہاں ہو گا؟ حیرت ہے کہ سڑکوں اور پُلوں کی تعمیر پر اعتراض کرنے والی تحریک انصاف دعوے تو یہی کرتی تھی کہ انسانوں پر خرچ کرنا چاہئے،لیکن اب کینسر کے موذی مرض میں مبتلا بیمار انسان بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔تنخواہ دار طبقے کی حالت اتنی زیادہ بری ہے کہ لاکھوں لوگ جو ایک سال پہلے تک خوش و خرم زندگی گزار تھے اب کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے ہیں، آٹو انڈسٹری میں 18لاکھ لوگ بے روزگاری ہو گئے اور جیسا کہ اشفاق تولہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک بڑا کار پلانٹ بند ہو گیا۔فیصل آباد میں 20 ہزار پاور لومز بند ہو گئی ہیں اور اُن میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔مزید پاور لومز کے بند ہونے کا بھی خدشہ ہے جس سے بیروزگاری بڑھے گی۔
تنخواہ دار طبقے کو سابق دور میں یہ ریلیف حاصل تھا کہ12لاکھ سالانہ آمدن پر انکم ٹیکس نہیں لگتا تھا،موجودہ حکومت نے پہلے ہی ہلے میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا اور قابل ِ ٹیکس آمدن12لاکھ سے کم کر کے چھ لاکھ روپے کر دی،اس طرح تخواہ داروں کو ٹیکس کی ادائیگی کا بڑا جھٹکا لگا، پھر کاروباری حالات کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں یا تو بیروزگاری بڑھ رہی ہے یا پھر جہاں آجر خدا ترس ہیں انہوں نے بیروز گاری کا راستہ اختیارکرنے کی بجائے وقتی طور پر تنخواہیں کم کر کے صنعتوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کی ہے، اس طرح30فیصد سے50فیصد تک تنخواہیں کم ہو گئیں،تنخواہوں کی کمی کے بعد جب یہ لوگ اشیائے صرف کی خریداری کے لئے مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں تو انہیں ایک روپے کی جگہ تین یا بعض صورتوں میں پانچ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں،کیونکہ بعض اشیا کی قیمتیں تین چار سے پانچ گنا تک بڑھ گئی ہیں،لیکن حکومت اسے”مصنوعی“ مہنگائی قرار دیتی ہے، حالانکہ یہ ”مصنوعی“ نہیں عین فطری مہنگائی ہے، کیونکہ روپے کی قدر میں کمی اور افراطِ زر کے نتیجے میں اشیا کی جو قیمت بڑھتی ہے وہ مصنوعی نہیں ہوتی، حکومت پکڑ دھڑ کے ذریعے قیمتیں کم رکھنا چاہتی ہے جو ممکن نہیں۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے سعودی عرب سے ایک بیان جاری کر دیا کہ افسر باہر نکل کر مہنگائی کنٹرول کریں،لیکن کیا اُن کے اس حکم سے کوئی فرق پڑا،اس کا صرف صارفین ہی کو اندازہ ہے، مہنگائی کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں جو چیز دکاندار تھوک مارکیٹ سے مہنگی خرید کر لائے گا وہ کسی افسر کے دباؤ کے تحت سستی کیسے فروخت ہو گی، اس کا تو میکانزم یہ ہے کہ تھوک مارکیٹ سے لے کر خوردہ قیمتوں کے پورے نظام پر نظر رکھی جائے اور اگر کہیں دکاندار مصنوعی طریقے سے مہنگائی کر رہا ہے تو اس کو ذمے دار گردانا جائے،لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہے،مہنگائی اپنے میکانزم کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے تو کہا ہے کہ آئندہ دوسال تک ایسا ہی رہے گا، یعنی مہنگائی اگر مزید نہ بڑھی تو موجودہ شرح پر برقرار رہے گی۔ اشفاق تولہ نے بتایا کہ انویسٹمنٹ نہیں ہو رہی، ایسے میں سوال ہے کہ اگر نئی صنعتیں نہیں لگیں گی اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے تو پھر لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ کیسے ہو گا اور کس طرح اپنی ضرورت کی اشیا خریدنے کے قابل ہوں گے۔پاکستان میں افراطِ زر کی شرح بھارت سے تقریباً ساڑھے تین، چار گنا زیادہ ہے اور بنگلہ دیش سے ڈھائی گنا زیادہ، افراطِ زر کی شرح اگر یہی(11.6فیصد) رہتی ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے مہنگائی کس طرح کم ہو سکتی ہے؟