لاہور اب بدلنے کو ہے!
سانحہ رنگ روڈرونما ہو چکا تھا، اور اب اسے گزرے بھی دو ہفتوں سے زیادہ ہو چکے تھے۔ تاہم نیشنل اسمبلی سمیت پورے ملک میں اس کیس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ اِسی تناظر میں میڈیا پر بھی بحث و تکرار کا سلسلہ جاری تھا اور کافی ہلچل دیکھنے میں آ رہی تھی۔ ”خاتون زیادتی کیس“ کے ملزم گرفتار ہو گئے، نہیں ہوئے، صرف ایک گرفتار ہوا۔ مرکزی ملزم عابد تاحال مفرور اور قانون کی دسترس سے دور۔ پولیس نے عابد سے رابطہ رکھنے والے کئی افراد کو زیر حراست لے لیا۔ جن میں اُس کے قریبی لوگ بھی شامل ہیں۔ فرانزک سائنس لیبارٹری میں پہلے سے موجود ملزم عابد کا ڈی این اے سیمپل متاثرہ خاتون کے ڈی این اے سے میچ کر گیا۔ گرفتار ملزم شفقت کی بھی ڈی این اے رپورٹ مثبت آ گئی۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی خبریں میڈیا پر تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔ اسی دوران لاہور میں تعینات ہونے والے نئے سی سی پی او عمر شیخ کا متنازع بیان بھی اس خاتون زیادتی کیس کا حصہ بن گیا۔ عمر شیخ اپنے بیان میں زیادتی کا شکار ہونے والی اس بدقسمت خاتون کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کہہ گئے کہ انہیں لوگ ہدفِ تنقید بنانے لگے۔ مثلاً کہا، خاتون رات کو گھر سے کیوں نکلیں۔ انہوں نے کار کا پٹرول کیوں نہیں چیک کیا۔ انہیں جی ٹی روڈ سے جانا چاہیے تھا، وغیرہ وغیرہ۔ جونہی اُن کا یہ بیان نجی ٹی وی چینلز پر آن ایئر ہوا، ہر طرف شوروغوغا مچ گیا۔ عمر شیخ پر تنقید ہونے لگی۔ ٹرانسفر سے لے کر معطلی تک کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ برپا ہو گیا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ سول سوسائٹی اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے احتجاج اور مظاہرے کرنے لگے۔ جس میں شدت آتی گئی۔ اس دوران مجھے پنجاب پولیس کے ایک سابق ڈی آئی جی شاہد اقبال کا فون آیا۔ گویا ہوئے”لاہور کے لیے عمر شیخ ایک اچھی چوائس ہے۔“ مزید کہا وہ دبنگ بھی ہیں اور فیلڈ کا وسیع تجربہ بھی انہیں حاصل ہے۔ ڈی آئی جی صاحب نے کہا انہوں نے عمر شیخ کو ہمیشہ میرٹ پر چلتے دیکھا ہے۔ وہ ایک پُرعزم پروفیشنل پولیس آفیسر ہیں۔ سچ مچ میں اب لاہور کی تقدیر بدلنے والی ہے۔“
اگرچہ میڈیا عمر شیخ کے خلاف ایک طوفان بپا کئے ہوئے تھا لیکن سابق ڈی آئی جی شاہد اقبال اُن کے متعلق کچھ اور ہی کہہ رہے تھے۔ میں نے عمر شیخ پر ریسرچ کی، اپنی تحقیقات کا دائرہ بڑھایا تو اپنے طویل صحافتی کیرئیر خصوصاً کرائم انویسٹی گیشن میں اپنے 25سالہ وسیع تجربے کی بنیاد پر عمر شیخ کے حوالے سے بنتے اس منظرنامے کو نہایت باریک بینی سے دیکھنے لگا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ بگڑے ہوئے اس لاہور کو عمر شیخ جیسے دبنگ پولیس آفیسر ہی کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ عمر شیخ کو اُن کے لیے لاہور لایا اور لگایا گیا ہے تاکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پسند کا انتخابی رزلٹ حاصل کیا جا سکے۔ لیکن عمر شیخ کہتے ہیں ”وہ ایک پروفیشنل پولیس آفیسر ہیں۔ اپنی 28سالہ سروس کے دوران کبھی کسی کے لیے سیاسی ٹول نہیں بنے۔“ وہ کہتے ہیں ”کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے۔ انہیں لاہور ٹھیک کرنے کے لیے لاہور لایا گیا ہے۔ وہ یہاں سے جرائم بھی ختم کریں گے اور ہر قسم کے مافیاز کو بھی۔“ انہوں نے پولیس کو سیدھا کرنے کی بھی بات کی۔ نئے سی سی پی او نے کہا کہ وہ لاہور کو 90دن کے اندر کافی حد تک ٹھیک کر دیں گے۔ سول سوسائٹی اور میڈیا سے بھی مخاطب ہو کر بولے ”آپ تین ماہ بعد خود گواہی دیں گے کہ لاہو ربدل گیا ہے۔“
نئے سی سی پی او نے جو کہا وہ نظر بھی آنے لگا ہے۔ لاہور کے طاقتور مافیاز اور پولیس میں کافی کھلبلی، بے چینی اور سراسیمگی پائی جاتی ہے۔ ن لیگ والے بھی سہم گئے ہیں کہ اب کیا ہو گا؟ کہ یہ نئے ”صاحب“ بڑے دبنگ قسم کے ہیں۔ فیصلے بھی بڑے کرتے ہیں۔ عمر شیخ نے ایک نئی اوراچھی مثال تو یہ قائم کی ہے کہ چارج سنبھالتے ہی ایک ڈی ایس پی سمیت کئی تھانیداروں کو ناقص تفتیش و کارکردگی، اختیارات کے ناجائز استعمال، سائلین سے بدسلوکی، رشوت اور اس جیسے مختلف انواع کے سنگین الزامات پر ناصرف پابندِ سلاسل کیا بلکہ اُن کے خلاف محکمانہ انکوائریاں بھی شروع کرا دی ہیں۔ الزامات ثابت ہونے پر ان سب کو نوکریوں سے برخاست کر دیا جائے گا۔ عمر شیخ جو اقدامات لے رہے ہیں وہ پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔ جس سے لاہور پولیس کی فضا بہت سوگوار ہے۔ تاہم عوام میں شیخ عمر کے متعلق اچھا تاثر پایا جانے لگا ہے۔لاہور پولیس کے تمام افسر اور ماتحت عملے کو معلوم ہو گیا ہے کہ کچھ بھی غلط کیا تو اُن کی ”خیر“ نہیں ہو گی۔ ”صاحب“ کمپرومائز کرنے والے نہیں۔
اللہ کرے نئے سی سی پی او جو عزم لے کر آئے ہیں اُس میں ثابت قدم رہیں۔ قوم کی تقدیر عمل اور فیصلوں سے بدلا کرتی ہے۔ ہمیں عمر شیخ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ اُمید ہے اب لاہور والوں کے لیے تھانوں میں دادرسی اور حصول انصاف کے راستے کٹھن نہیں، آسان ہوں گے۔ عمر شیخ جیسی مثال پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی قائم ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔ اس طرح پولیس پر لوگوں کو اعتماد بحال ہوسکے گا۔