جمہوریت ابتدا کیجیے
ہمارے ہاں کہنے کو تو جمہوریت بھی ہے اور لوگوں کو ووٹ دینے کا حق بھی، لیکن کیا ہم واقعی جمہوری سوچ رکھتے ہیں؟؟
کیا کوئی سوچ سکتا ہے اور بتا سکتا ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ووٹ دینے میں آزاد ہیں؟ اگر میں سوچوں تو شاید 2 فیصد ہوں لیکن اس کا بھی یقین نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے ایک دفعہ ایک فوجی افسروں کے ایک بڑے وفد کی دعوت کی تھی جس کی قیادت ایک بریگیڈیئر صاحب کر رہے تھے اس وفد میں 6 برگیڈیئر کے علاوہ، کرنل، ایئر کموڈور اور کیپٹن شامل تھے۔ جن میں چند ایک غیر ملکی بھی تھے۔ میں نے قیادت کرنے والے بریگیڈئر صاحب سے سوال پوچھا کہ کیا آپ ووٹ اپنی مرضی سے دیتے ہو یا کسی مجبوری سے تو ان کا جواب یہ تھا کہ میں بھی ووٹ آزادی سے نہیں ڈال سکتا۔ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ہمارا مسئلہ ہماری کمزوریاں، ہماری مجبوریاں، ہماری غلامانہ، سوچ، ہمارے گھٹیا مفادات اور غیر جمہوری سوچ ہے۔
جمہوریت میں ہر وہ شخص(مرد یا خاتون) جس کی عمر ووٹ دینے کی ہے اپنا ووٹ اپنی مرضی سے کاسٹ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس پر والدین اثر انداز ہو سکتے ہیں نہ شریک حیات، وہ اپنی برادری کا پابند ہے نہ علاقے یا گاؤں کا، اس کے سامنے اپنی عقل کے مطابق قومی مفاد ہونا چاہیے جس کے لیے اہل اور دیانتدار امیدوار کا انتخاب کرے۔ لیکن ہمارے ہاں اگر جمہوری سوچ کو پنپنے دیا ہوتا تو پھر جماعتوں کو اکثریتی برادری میں سے امیدوار لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی، اگر ہم ایک ذمہ دار معاشرے کے فرد ہوتے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپے اور طاقت کی ضرورت نہ ہوتی، بلکہ اسمبلی امیدوار بننے کے لیے دیانت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی، ہماری خواتین اور نوجوان اپنی ایمانداری سے بتائیں کہ کیا وہ ووٹ اپنی مرضی، اپنی فردشناسی، اور اپنی آزاد سوچ کے مطابق کسی اہل اور ایماندار امیدوار کو دے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں کوئی ایسی مثال ہے کہ اعلانیہ طور پر بیوی نے اپنے خاوند کی مرضی کے خلاف ووٹ دیا ہو؟ اور اگر ایسا کرے تو پھر گھر میں بھی رہ سکے؟
ایک طرف ہمارے معاشرے میں جبر ہے کہ ہمارے بڑے اپنے بچوں اور خواتین کو مجبور کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف غیر جمہوری سوچ اور غیر ذمہ داری کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ ووٹ ڈالتے وقت ہر فرد اکیلا ہوتا ہے اور صرف اس کا اللہ جانتا ہے کہ وہ ووٹ کس کو دے رہا/ رہی ہے۔ تو پھر آپ کو جوابدہ بھی اللہ ہی کے سامنے ہونا ہے۔ تحریر کی طوالت سے بچنے کے لیے مختصر عرض کرتا ہوں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوری سوچ پیدا کرنی چاہیے اور اپنے کارکنوں کی درست تربیت کرنی چاہیے۔ تمام امیدواروں کو بھی کھل کر اظہار کرنا چاہیے کہ ہر فرد اپنی مرضی سے ووٹ دے۔ والدین اور خاوندوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے حقوق سے تجاوز نہ کریں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے انسانی حقوق کی تقسیم میں کسی کو کسی کا غلام نہیں بنایا، والدین کی عزت کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان کے آگے اف تک نہ کرنا فرض ہے۔ لیکن اپنے دینی اور قومی فرائض کی قربانی فرض نہیں ہے۔ نہ اس کا وہ حق رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں انتخابات کے موقع پر امیدوار اور ان کے حمایتی ہر غلط حربہ استعمال کرتے ہیں۔ برادری ازم، تعلق واسطے، رشتہ داریاں، پیسے، نوکری، تقرری، تبادلہ، تھانے کچہری اور گلی، نالی اور نلکا ٹونٹی غرض ہر ناجائز طریقہ آزمایا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کو مارنے تک کا خوف بھی دلایا جاتا ہے۔ اگر ملک کے اندر باقاعدگی سے ہر پانچ سال میں دو انتخابات(ایک اسمبلیوں اور دوسرے بلدیاتی) ہوتے رہتے تو لوگوں میں جمہوری سوچ پروان چڑھ سکتی تھی لیکن ہمارے ہاں آمریت زیادہ رہی ہے جس سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی آمرانہ سوچ اپنا لی ہے اور تمام فیصلے شخصی اور آمرانہ ہوتے ہیں۔
ابھی شنید ہے کہ پنجاب کے اندر نئے بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ادھر شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں بھی اسمبلیوں کے انتخابات قریب ہیں۔ عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنا ووٹ قومی مفاد میں اہل اور دیانتدار امیدوار کو دینا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کسی امیدوار سے اپنے بچوں کی نوکری کا مطالبہ ہر گز نہ کریں بلکہ ان سے بیروزگاری کے خاتمے کے متعلق ان کے ویڑن کی جانکاری لیں، ان کی پالیسیوں اور منشور کے متعلق سوال اٹھائیں۔تمام امیدواروں کا نظریہ، منشور، ان کی پالیسیوں کے متعلق جانیں، ان کی اہلیت اور ایمانداری پر غور کریں، اگر آپ جان جائیں کہ یہ ایماندار نہیں، انہوں نے کرپشن کی ہے یا لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے ہیں۔ میرٹ سے ہٹ کر کام کیے ہیں۔ تو پھر ان کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی ایماندار نہیں ہیں۔
عام طور پر امیدواروں کا انتخاب جماعتی قیادت کرتی ہے۔ جو خود منتخب نہیں ہوتے۔ عوام کو چاہیے کہ اپنے اپنے علاقے سے اپنے امیدواروں کا چناو بھی آپ خود کریں۔ آمر پارٹی لیڈر شپ کے غلام نہ بنو،بلدیاتی انتخابات میں ہر علاقے کے لوگ خود اپنے امیدوار کے ٹکٹ کا فیصلہ کریں - کسی بھی پارٹی کی لیڈرشپ کی طرف سے نامزد امیدوار کو قبول نہ کریں -
پاکستان میں کسی بھی پارٹی میں انٹراپارٹی انتخابات ہی نہیں ہوئے -اس لیے آپ بے شک کسی بھی پارٹی کو سپورٹ کریں، لیکن بلدیاتی انتخابات، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے وقت اپنے حلقے کے امیدوارں کے ٹکٹ کا فیصلہ خود کریں - یہ حق پارٹی لیڈر شپ کو کبھی نہ دیں - اگر آپ نے اپنے امیدوار کے ٹکٹ کے فیصلے کا حق آمر پارٹی لیڈرشپ کو دے دیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے 5 سال کے لیے غلامی کے پروانے پر دستخط کر دیے - جس سے نہ آپ کے مسائل حل ہونگے اور نہ ہی ملک ترقی کرے گا -
" بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، ووٹ درست امیدوار کو دے کہ ہاتھ آزاد ہیں تیرے"