نوازشریف 54 منٹ کی تقریر، کئی سوال، کئی تضاد

نوازشریف 54 منٹ کی تقریر، کئی سوال، کئی تضاد
نوازشریف 54 منٹ کی تقریر، کئی سوال، کئی تضاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنی 54 منٹ کی تقریر میں بہت کچھ کہہ دیا۔ مگر ایک بات نہیں کی کہ وہ کب پاکستان واپس آ کر اس تحریک کا حصہ بنیں گے جو حکومت کے خلاف چلائی جانے والی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ ان کی وزیر اعظم عمران خان سے کوئی لڑائی نہیں، اصل لڑائی تو انہیں لانے والوں کے ساتھ ہے اب یہ وہ بیانیہ ہے کہ جس کا شاید اے پی سی میں شریک بہت سی شخصیات نہ دینا چاہتی ہوں کیونکہ ان میں سے اکثر تو لانے والوں ہی سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنے سلیکٹڈ وزیر اعظم کو گھر بھیجیں۔ اگر  نوازشریف نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے ہر فیصلے کا بھرپور ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن شاید ہی کوئی ایسا فیصلہ کرے جو براہ راست فوج کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جائے۔

تاہم میاں صاحب کی ساری تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ جمہوریت کی اصل بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فوج اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لئے انتخابی عمل میں مداخلت سے باز نہیں آتی۔ اگر میاں صاحب کی اس بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر وہ اپنے تین بار وزیر اعظم بننے کو کس خانے میں شمار کریں گے۔ انہوں نے منتخب وزرائے اعظم کو نکالنے کا ذکر تو بار بار کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ جو وزرائے اعظم بنائے گئے کیا ان کے پیچھے بھی فوج کا ہاتھ تھا۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ جب  نوازشریف وزیر اعظم بنتے رہے تو فوج نے انتخابی عمل میں مداخلت نہ کی ہو لیکن جب کوئی دوسرا بنا تو وہ فوج کی حمایت سے تخت نشین ہوا۔ کیا یہ حقیقت نہیں خود میاں  نوازشریف ایک عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہے ہیں خرابی تو اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے فوج پر غلبہ پانے کی سوچ کو اپنایا۔


 نوازشریف کی تقریر میں بہت تلخ و ترش باتیں تھیں مگر وہ کئی باتوں کی سچائی سے گریزپا نظر آئے، انہوں نے سیاسی تاریخ کا سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا، حالانکہ انہوں نے سیاسی انتقام کی بنیاد بھی خود رکھی۔ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر کرپشن کے کیسز بنوائے، محترمہ بے نظیر بھٹو کو قبل از وقت گھر بھیجنے کے لئے تحریک خود چلائی، آج جن کیسوں میں آصف زرداری اور فریال تالپور نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں وہ انہی کے دور میں بنے، ”شریک جرم“ ہونے کے باوجود  نوازشریف آج سارا ملبہ فوج پر گرا گئے یوں تاریخ کے کئی سچ ان کی تقریر میں جگہ پانے سے محروم رہے ان کی تقریر میں کئی باتیں درست بھی تھیں، مثلاً ایوانِ وزیر اعظم کی دیواریں پھلانگ کر ایک وزیر اعظم کو گرفتار کر لینا اور ججوں کا آمر کو پلیٹ میں سجا کے اقتدار کی اجازت کا پروانہ تھمانا، نظریہ ضرورت کو ایجاد کرنا اور پھر مرضی کے ماورائے آئین فیصلے کرنا عام انتخابات میں من پسند امیدواروں کو جتوانے کے لئے انتخابی عمل کو سبوتاژ کر کے مفلوج بنا دینا، مگر ان کی یہ درست باتیں بھی اس لئے گہنا جاتی ہیں کہ وہ خود بھی اس عمل سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل رہے ہیں 2013ء کے انتخابی نتائج آنے سے پہلے ہی انہوں نے رات گیارہ بجے اپنے جیتنے کا اعلان کس بنیاد پر کیا کس نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جیت چکے ہیں جبکہ 80 فیصد حلقوں میں تو ابھی گنتی جاری تھی۔


اس وقت نوازشریف ایک عجیب مخمصے کا شکار ہیں وہ ایک طرف اپوزیشن کو یہ تحریک دیتے ہیں کہ سب کشتیاں جلا کر ووٹ کو عزت دو کے لئے باہر نکلا جائے۔ مگر دوسری طرف خود باہر بیٹھے ہیں اور وطن واپس نہیں آنا چاہتے یہ تضاد ان کے اعلانات کو مصنوعی بنا دیتا ہے۔ وہ باہر بیٹھ کر بھلا اپوزیشن کی تحریک کو کیسے ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں؟ آصف زرداری نے تو اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے، اپنے بارے میں یہ کہہ دیا کہ ان کی تقریر کے بعد پہلی گرفتاری ان کی ہو گی مگر وہ اس سے گھبرانے والے نہیں ہاں اس وقت نوازشریف کی تقریر کا اثر دو چند ہو جاتا جب وہ اپوزیشن سے فیصلہ کن تحریک چلانے کا کہہ کر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتے کہ اس مقصد کے لئے وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ رہے ہیں اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وہ پکی پکائی کھانا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن یہاں قربانیاں دے کر ماحول گرم کرے اور جب سب کچھ بدل جائے تو میاں صاحب بریانی کھانے پاکستان پہنچ جائیں۔ اب لوگ یہ مثالیں دے رہے ہیں کہ الطاف حسین اور نوازشریف میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ وہ بھی باہر بیٹھ کر اداروں کو برا بھلا کہتے تھے اور میاں صاحب بھی یہی کر رہے ہیں بیرون ملک بیٹھ کر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کرنے کی کوشش کرنا ایک منفی عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے نوازشریف سے لوگ یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ اپنی سیاست کو ویڈیو لنک کے ذریعے چلائیں گے۔ اس طرح تو ان کے بارے میں بزدل کا تاثر ابھرے گا کہ وہ حالات کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔


سوال تو یہ بھی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ  نوازشریف نے اچانک اپنی زبان بندی ختم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور چپ کا سلسلہ توڑتے ہی اتنی سخت باتیں کیوں کیں؟ غالباً اس کی وجہ وہ حالات ہیں جو پچھلے کچھ عرصے کے دوران رونما ہوئے اور جن کے سبب  نوازشریف کو کھل کر سامنے آنا پڑا۔  نوازشریف لندن میں بیماری کا بہانہ بنا کے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ حکومت اس غور کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ مگر جونہی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ  نوازشریف کو واپس لایا جائے گا اور عدالت سے نیب نے رجوع کیا جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی ضمانت منسوخ کر دی اور انہیں گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا تو میاں صاحب کو بیماری کی وجہ سے خاموش رہنے کی پالیسی تبدیل کرنا پڑی۔

انہوں نے اس الزام کو گویا تسلیم کر لیا کہ انہیں کوئی خطرناک بیماری لاحق نہیں بلکہ وہ پاکستان واپسی سے بچنے کے لئے بیمار بنے ہوئے ہیں ان کی اس دھواں دار تقریر کے بعد اب کسی کو شک و شبہ نہیں رہا کہ نوازشریف مکمل طور پر فٹ ہیں اور ان کی جو حالت بیان کی جاتی تھی، وہ فرضی اور خود ساختہ تھی۔  انہوں نے کہا ہے کہ نیب صرف حکومت کے مخالفین کو نشانہ بناتا ہے۔ انہوں نے عاصم سلیم باجوہ، علیمہ خان حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر نیب کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب مستقبل میں نوازشریف زیادہ تسلسل کے ساتھ بولیں گے اور حکومت نیز اس کے سرپرستوں کو للکاریں گے۔  وہ ایک لمبی لڑائی کے لئے کمر کس چکے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -