چین کیوں خاموش ہے؟ (1)
اتوار 20ستمبر کو اسلام آباد میں ملٹی پارٹی کانفرنس کے احوال کی جگالی انشاء اللہ آنے والے کئی دنوں بلکہ ہفتوں اور مہینوں تک ہوتی رہے گی…… شاید یہ کلچر ہم پاکستانیوں کی تقدیر بن چکا ہے…… نوازشریف صاحب نے جو لکھی ہوئی تقریر پڑھی ہے اس کو بعض تجزیہ نگاروں نے ایک موثر تقریر کہا ہے۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے سیاستدان کو اگر فی البدیہہ تقریر کا فن بھی نہ آ سکے تو اس صورتِ حال پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تقریر کس نے لکھی اور ریہرسل کس نے کروائی اس کا کھوج لگانے کی ضرورت نہیں۔ تقریر میں جن جج صاحبان کا نام لیا گیا ان میں حاضر سروس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی ریٹائرڈ کے نام لئے گئے۔ ان ناموں کے ساتھ جس تقریر نویس کا نام کسی قاری کے ذہن میں آئے تو اس امکانی خیال کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ویسے آپس کی بات ہے، ایک نام جسٹس قیوم کا بھی تھا۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، یہ تقریر نویس سے زیادہ مقرر سے پوچھنا چاہیے۔
دیارِ غیر میں مقیم ایک سزا یافتہ اور مفرور شخصیت کو میڈیا پر لاکر نون لیگ نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی چلائی ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس تقریر کی پرچیاں شہباز شریف صاحب کو دے دی جاتیں۔ نون لیگ نے ایسا نہ کرکے ایک شدید ذہنی افلاس کا ثبوت دیا ہے۔ اور نوازشریف صاحب نے اپنے تمام آلام و مصائب کا ذمہ دار جرنیلوں کو ٹھہرا کر گویا ایک بار پھر اپنی لیگ کو کسی آنے والے انتخابات سے ’آؤٹ‘ کر دیا ہے۔ آصف زرداری صاحب نے تو یہ کہا تھا کہ آرمی چیف صرف تین برس کے لئے آتا ہے اور سیاستدان عمر بھر حکمرانی کرنے کے شرف سے مشرف ہوتے ہیں۔ لیکن ہوا کیا ہے؟ جرنیل ابھی تک آتے جاتے ہیں۔ کوئی جیل نہیں گیا۔ لیکن سیاستدان؟…… زرداری صاحب نے تو خود فرما دیا ہے کہ وہ پہلا بندہ ہوں گے جو جیل جائے گا اور مولانا فضل الرحمن کو جیل میں ملاقات کرنے کی دعوت بھی دے دی ہے۔
ایسی سیاسی صورتِ حال پر کوئی کالم لکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے انشا جی اٹھو! اب کوچ کرو…… اور کوچہ ء شمشیروسناں کا رخ کرو……
بظاہر دیکھا جائے تو انڈیا اور چین کے حالیہ مسلسل سٹینڈ آف کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ دونوں ملکوں کی عسکری قوت کا موازنہ کریں تو انڈیا، چین کے مقابلے میں ہر لحاظ سے کمزور ہی نہیں بلکہ حقیر عسکری قوت ہے۔ انڈیا کی سالانہ معیشی نشوونما، ملٹری بجٹ، جنگی ساز و سامان اور بین الاقوامی تجارت کا حجم اس قابل نہیں کہ وہ چین کے ساتھ کسی زیادہ مدت تک جنگ لڑ سکے۔ دونوں ملکوں کے وارسٹیمنا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کا عسکری ماضی بھی اس حقیقت کا شاہد ہے کہ انڈیا، زیادہ دیر تک چین کے مقابل نہیں ٹھہر سکتا۔ 1962ء کی جنگ کے علاوہ دو تین برس پہلے سکم کی سرحد پر جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی، اس میں بھی چین کا پلڑا انڈیا سے کہیں زیادہ بھاری تھا۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ امریکہ نے انڈیا کے ساتھ کوئی (غیر تحریری) معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اگر چین نے اس پر حملہ کیا تو امریکہ اس کی مدد کو آئے گا۔ چنانچہ میرے خیال میں تمام اشاریئے (Indicators) انڈیا کے خلاف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اپریل / مئی 2020ء سے انڈیا، لداخ میں اپنی عسکری قوت کا زبردست ڈھنڈورہ پیٹ رہا ہے……
دوسری طرف چین بھی زیادہ کھل کر سامنے نہیں آ رہا۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ بھی، جنگ تو دور کی بات ہے، کوئی درمیانی یا معمولی درجے کی جھڑپ (Skirmish) بھی مول لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 15جون کو چین نے انڈیا کے جو 20فوجی ایک جھڑپ میں مار دیئے تھے اس کے بعد انڈیا کی مسلسل بڑھکوں کے باوجود چین بالکل پُرسکون اور خاموش ہے…… ایسا کیوں ہے؟…… اس سوال کا کوئی واضح جواب تو مجھے نہیں مل سکا۔ البتہ چند اندازے اور امکانی تجزیئے ہیں جو میں، قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ تقریباً دس برس سے چین نے (ماسوائے 15جون کے خونریز لیکن عاجل اور مختصر معرکے کے بعد سے) بھارت کے خلاف کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جو قابل ذکر ہو…… بہت سے قارئین کو معلوم ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان تین مقامات ایسے ہیں جن کی ملکیت متنازعہ ہے۔ انڈیا اور چین تقریباً ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے لیکن روز اول ہی سے یہ دو طرفہ سرحدی تنازعے چل رہے ہیں۔ پہلا تنازعہ مشرقی سیکٹر میں ہے جس میں 90,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ متنازعہ ہے۔ اور وہ انڈیا کے کنٹرول میں ہے۔ اس کا نام اروناچل پردیش ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چین 1948ء میں اپنے قیام کے فوراً بعد اس حصے پر لشکرکشی کر دیتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ تبت کا پورا علاقہ برطانیہ نے 1947ء میں یہاں سے نکلتے ہوئے انڈیا کو ’سونپ‘ دیا تھا اور کہا تھا کہ تاریخی اعتبار سے تو یہ علاقہ چین کا ہے لیکن تقریباً 100سال سے یہ ایک خود مختار علاقہ بنا ہوا ہے اور اس پر دلائی لامہ کا قبضہ ہے…… ہم دلائی لامہ کی بحث میں نہیں پڑتے…… صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چین نے پہلے تبت کو اپنے کنٹرول میں لانے کا بندوبست کیا اور اس کے بعد اروناچل پردیش والے علاقے کی طرف متوجہ ہوا جس پر انگریز نے اپنے دورِ حکومت میں قبضہ کر لیا تھا اور اسی لئے یہ علاقہ 1947ء سے لے کر آج تک متنازعہ چلا آ رہا ہے…… مغربی سیکٹر میں دیکھیں تو اقصائے چین کا علاقہ ہے۔ اس پر بھی انڈیا نے 1947ء میں قبضہ کر لیا تھا۔اس کا رقبہ 33000مربع کلومیٹر ہے۔ چین نے 1962ء کی جنگ میں اس کو انڈیا سے واپس لے لیا اور جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا اس کی رو سے اقصائے چین پر چین کا تسلط تسلیم کر لیا گیا۔ ان دو علاقوں (مشرقی اور مغربی) کے درمیان ایک تیسرا علاقہ بھی متنازعہ ہے جس کو ہم وسطی سیکٹر یا علاقہ کہہ سکتے ہیں اور یہ نیپال کے مغربی حصے کا علاقہ ہے۔ اس کا رقبہ 2000مربع کلومیٹر ہے۔ انڈیا اور نیپال کے درمیان یہ سیکٹر آج بھی متنازعہ ہے۔
1962ء میں انڈوچائنا وار کے بعد ایک عارضی جنگ بندی لائن کھینچ دی گئی تھی جس کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کہا جاتا ہے۔ اس LAC پر 13،14 مقامات ایسے ہیں جن کی ملکیت کے بارے میں طرفین (انڈیا، چین، نیپال) ایک صفحے پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی لائن کو LOC نہیں بلکہ LAC کہا جاتا ہے۔ ایسٹرن اور مڈل سیکٹروں (اروناچل پردیش اور نیپال کا مغربی علاقہ) کو چھوڑ کر چین نے سارا فوکس مغربی سیکٹر (اقصائے چین اور لداخ) پر لگایا ہوا ہے۔مئی جون 1999ء میں انڈو پاک کارگل وار کے بعد چین نے لداخ کے تمام علاقے کو متنازعہ ڈکلیئر کر دیا تھا لیکن حال ہی میں تو اس کو بڑے تواتر سے متنازعہ ہونے کا ببانگ دہل اعلان کر دیا ہے۔ جب سے گزشتہ برس اگست میں انڈیا نے جموں کشمیر اور لداخ کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ان علاقوں کو انڈین یونین کا باقاعدہ حصہ بنا دیا تو تب چین کے کان کھڑے ہوئے۔ انڈیا نے ان علاقوں کی خصوصی حیثیت تو 2019ء میں ختم کی لیکن چین، اس سے بھی پانچ سال پہلے CPEC کا ڈول ڈال چکا تھا۔ قراقرم ہائی وے (KKH) اور CPEC کے ریل اینڈ روڈ نیٹ ورک کو جو خطرہ انڈین مقبوضہ لداخ سے تھا اس کا ذکر آگے آ رہا ہے!
دوسری بات جو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ چین کے سٹرٹیجک پہلوؤں کو محیط ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں یہ وضاحت کی ہے کہ انڈیا، چین کا بڑا دشمن نہیں۔ چین کا اصل اور بڑا حریف امریکہ ہے۔ امریکہ، جاپان میں ہے، جنوبی کوریا میں ہے۔ تائیوان میں ہے (اگرچہ کھل کر سامنے نہیں آتا لیکن بالواسطہ اس کی ہمہ جا نہیں سپورٹ تائیوان کو حاصل ہے) آپ کو یاد ہوگا 1960ء میں کیوبا میں سوویت یونین کے جوہری میزائلوں کے سوال پر دنیا کی یہ دو سپرپاورز (امریکہ اور سوویٹ یونین) ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ کر واپس آئی تھیں۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ کیوبا کی شکل میں اس کا کوئی قریبی ہمسایہ، سوویت یونین کا صحافتی یا حمائتی یافتہ ہو کر اس کی بغل میں بیٹھا رہے۔ اسی طرح چین بھی، تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے لیکن اس جزیرے پر جو حکومت قائم ہے، وہ چین سے برسرِ پرخاش ہے اور امریکہ کے ساتھ گھی کچھڑی ہے۔ تاہم چین جب بھی چاہے، تائیوان پر قبضہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ اس انتظار میں ہے کہ یہ جزیرہ خود چین کے سایہ ء عاطفت میں آ جائے…… علاوہ ازیں ساؤتھ چائنا سمندر کا جھگڑا بھی امریکہ اور چین کے مابین باعثِ نزاع ہے۔ بحرالکاہل کے مغربی ساحل پر امریکہ کے سٹیک چند در چند ہیں۔ چین اس سمندر (Sea) پر اپنا حق تصور کرتا ہے اور تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ یہ ساؤتھ چائنا سی (South China Sea)صدیوں سے چین کی عملداری کا سمندر ہے۔
اسی لئے میں نے عرض کیا ہے کہ چین کا اصل فوکس اپنے سٹرٹیجک حریف امریکہ پر ہے، انڈیا پر نہیں۔ انڈیا چائنا بارڈر یا LAC زیادہ سے زیادہ چین کے لئے ایک ”ثانوی سٹرٹیجک اہمیت“ کا علاقہ ہے، ”پرائمری سٹرٹیجک اہمیت“ کا نہیں۔ پرائمری سٹرٹیجک اہمیت کا علاقہ بحرالکاہل کا مغربی ساحل ہے جس میں جاپان، جنوبی کوریا، ساؤتھ چائنا سی اور وہ ممالک واقع ہیں جو امریکہ کے حمائت یافتہ اور کاسہ لیس ہیں۔
اگر چین، اپنے جنوبی بارڈر پر کہ جس میں اروناچل پردیش، اقصائے چین اور لداخ واقع ہیں، امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھتا ہے تو تبھی بحرالکاہل کے مغربی ساحل پر اپنی پوری توجہ مبذول رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین، انڈیا کے ساتھ کوئی بڑا معرکہ لڑنے کو تیار نہیں۔ البتہ وہ انڈیا کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ دباؤ وہی ہے جس کا مظاہرہ 15جون کو انڈیا ہی نے نہیں ساری دنیا نے دیکھا۔ 1962ء کی مختصر جنگ (جو صرف ایک ماہ جاری رہی) کے بعد چین نے عمداً LAC پر امن کی فضا قائم اور برقرار رکھی ہے۔ انڈیا آئے روز چین کے خلاف اشتعال انگیز خبریں تو نشر کرتا رہا ہے لیکن چین خاموش ہے۔ ہاں جب یہ انڈین اشتعال انگیزی حد سے بڑھنے لگتی ہے تو چین 15جون کی طرح کا کوئی ”کچوکا“ لگا کر انڈین سول اینڈ ملٹری لیڈرشپ کی یاد دلا دیتا ہے کہ ”ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور اپنے ’سورگباشی‘ 20جوانوں کی ’ہتیا‘ کو فراموش نہ کیا جائے“۔ (جاری ہے)