نیا افغانستان
میری نظر میں افغانستان میں 20سال تک جاری جنگ میں شکست کے بعد امریکہ وہاں سے بھاگ نکلا۔اس سے بڑھ کر بھارت کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت نے افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی اور وہاں بھاری سرمایہ کاری کی لیکن طالبان واپس آ گئے اور عبوری حکومت بھی تشکیل دے دی۔ جس کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے۔ اس وقت افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ جو کسی بھی لحاظ سے اچھا نہیں ہے۔ اس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کیش کی فراہمی ضروری ہے۔ آئی ایم ایف نے 440ملین ڈالرز کے ایمرجنسی ریزرو تک افغانستان کی رسائی روکی ہوئی ہے اور افغان سینٹرل بینک کے 10ارب کے اثاثے بھی بیرون ملک منجمد ہیں۔ ایسی صورت میں اگر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جائے تو یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان کا ساتھ دے۔ اگر افغانستان میں حالات سنگین ہوگئے تو یہ پورے خطے کے لئے خطرہ ہے۔ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی عام عافی کا اعلان کر چکے ہیں اور کہا کہ یہ معافی سیاسی نہیں بلکہ شرعی قانون ہے۔ ہم اپنی سرزمین پر قبضہ ختم کرکے اسلامی نظام چاہتے تھے جو اللہ تعالی نے ہمیں دیا، تمام پڑوسی ممالک اور دنیا سے اسلامی اصولوں اور روایات کے تحت تعلقات چاہتے ہیں۔
ہم کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، دوسرے بھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ ہمارے لوگ مظلوم تھے، ان کے ساتھ براسلوک نہ کریں۔افسران افغان عوام کے حکمران نہیں خادم ہیں، کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں۔اب چونکہ طالبان کا رویہ پہلے سے بہت بہتر ہے۔ وہاں پر خواتین کو کام کرنے کی اجازت بھی مل چکی ہے جبکہ ہائر ایجوکیشن کے وزیر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی، یہ کئی دہائیوں سے جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو کے لئے بہت ضروری ہے تاہم ان کے مطابق صنفی علیحدگی اور اسلامی لباس ضروری شرائط ہوں گی۔ طالبات کو خواتین اساتذہ ہی پڑھائیں گی اور شرعی قوانین کے عین مطابق طالبات کے کلاس رومز بھی علیحدہ ہوں گے۔ وزیرعبدالباقی حقانی نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد موجود ہے اور اس حوالے سے ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔جہاں اشد ضرورت ہو گی تو وہاں مرد اساتذہ بھی پڑھا سکیں گے تاہم طالبات کو علیحدہ بٹھانے سے متعلق خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔حال ہی میں پاکستان میں افغانستان کی صورتحال پر پاکستان کی سربراہی میں 8 انٹیلی جنس چیفس کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی سربراہی آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کی۔
اس اجلاس میں غیر ضروری بھارتی سرگرمیوں سے متعلق پاکستان تحفظات پر غور کیا گیا۔ اہم امور پر صلاح مشورہ میں پاکستان، چین، روس، ایران، قازقستان،ترکمانستان اور ازبکستان اور تاجکستان شریک ہوئے۔ جس میں علاقائی سلامتی، دیرپا امن واستحکام کے قیام پر مشاورت کی گئی اور یکساں لائحہ عمل کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ایسے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ جو خطے میں امن و امان کی صورتحال کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ اگر کسی بھی ملک خاص طور پر افغانستان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے براہ راست اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ اس وقت پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور عالمی برادری کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے اتحاد کی بات کریں تو دونوں ملک ایک دوسرے پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جب الزام تراشیوں اور شکوؤں کا دور ختم ہوگا تو تعلقات ازسرنو ترتیب دیے جائیں گے۔ اس بار پاکستان کو امریکہ سے فوجی اور معاشی مدد کی کوئی امید نہیں ہوگی اور واشنگٹن بھی ایسی کسی مدد کے لئے تیار نہیں ہوگا بلکہ فوجی تعاون تو 2011 کے بعد سے ہی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کے مفادات پاکستان سے جڑے ہیں۔
دہشت گرد گروپوں کے خلاف پاکستان کا تعاون امریکی ضرورت ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی وجہ سے بھی امریکی دلچسپی برقرار رہے گی اور پاک بھارت جنگ اور اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا ڈر بھی واشنگٹن کو اسلام آباد کے ساتھ قریبی رابطوں پر مجبور کرتا رہے گا۔ ان مفادات کے باوجود اب واشنگٹن کی فیاضی ختم ہوچکی ہے اور مستقبل میں صرف سرمایہ کاری، انسانی امداد اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں کی حد تک تعاون ممکن ہے۔ پاکستان، افغانستان میں امریکہ کی طرف سے دی گئی امداد کی تقسیم میں بھی مددگار ہوسکتا ہے۔ افغانستان کو عدم استحکام سے بچانا واشنگٹن اور اسلام آباد کا مشترکہ مفاد ہے اور اس لئے یہ امدادی پروگرام بہت اہم ہے۔ پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باوجود امدادی سامان افغانستان بھجوانا شروع کرچکا ہے۔20 سال پہلے جب امریکی بمبار طیاروں نے طالبان کی حکومت تتر بتر کی تو کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ امریکہ کے نکلتے ہی طالبان دوبارہ اقتدار میں ہوں گے۔ اس صورتحال میں الزام تراشی اور انگشت نمائی کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے افغانستان میں انسانی المیے کو روکنا اور افغان ریاست کو منہدم ہونے سے بچانا سب کے لئے ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ یہی خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔