پاک فضائیہ اور افغانستان کی جنگ (3)

 پاک فضائیہ اور افغانستان کی جنگ (3)
 پاک فضائیہ اور افغانستان کی جنگ (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ائر وائس مارشل اپنی تحریر جاری رکھتے ہیں:
اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن کا تعلق عالمِ آب و گل سے بھی تھا اور عالمِ بالا سے بھی۔ اس جنگ نے پاکستان کے لئے بہت سے چیلنج پیدا کر دیئے اور ہماری طرف سے 2004ء میں انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنوں کا ایک مسلسل سلسلہ شروع ہوا۔ آپریشن راہِ راست، ضربِ عضب اور ردالفساد  2008ء کے بعد سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ یہ پاکستان کی اپنی جنگ تھی جو ان دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لانچ کی گئی جو پاکستان میں القاعدہ کی شکل میں موجود تھے۔وہ سلسلہ جو عسکریت پسند اسلامی جذبات کے اظہار کی صورت میں شروع ہوا تھا آج بھی داعش کی صورت میں موجود ہے۔داعش یہ سمجھتا ہے کہ عالمِ اسلام کو بہت سی زیادتیوں کا سامنا ہے۔ وہ لوگ اس پرسپشن سے آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔


امریکیوں نے ”آپریشن اینڈیورنگ فریڈم“ (Operation Enduring Freedom) 2001ء میں شروع کیا اور پاکستان کو خواہی نخواہی امریکہ کے اس پراجیکٹ میں شامل ہونا پڑا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے چارٹر کے تحت آپریشن نمبر1267 اور 1373کی رو سے اُن تمام اقوام و ممالک کو اس میں حصہ لینا پڑا جنہوں نے اس چارٹر پر دستخط کئے تھے اور اس طرح دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں سہولت کار اور مددگار بننا پڑا۔ جنرل مشرف نے 1999ء میں نوازشریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا، امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور پاکستان، امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بن گیا۔ جنرل مشرف ایک سال سے اس تگ و دو میں مصروف تھے کہ کسی نہ کسی طرح عالمی برادری میں اپنے ملٹری کُو کے بعد اپنے اقتدار کا جواز پا سکیں۔ اس کے لئے انڈیا بھی امریکہ کا ساتھ دینے کو تیار تھا لیکن پاکستان نے امریکی مشن کو سپورٹ کرنے کی جو کوشش کی وہ زیادہ پُرجوش اور مدلل تھی ہرچند کہ یہ کاوش ایک سیاسی مقصد کے تحت کی گئی۔ پاکستان کو اس کے لئے کافی کچھ کرنا پڑا اور تب جا کر امریکہ کا قرب حاصل ہو سکا۔اسی قرب کے طفیل پاکستان نے بین الاقوامی حمائت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ حاصل کیا۔ لیکن یہ جو کچھ بھی تھا وہ پاکستان کے داخلی جمع خرچ (Consumption) کے لئے تھا۔ 


پاک فضائیہ کو کہا گیا کہ وہ بلوچستان کے تین مستقر (Bases) امریکہ کے حوالے کرے۔ یہ بیسز پاک فضائیہ کے زیرِ استعمال نہیں تھیں۔ ان کے علاوہ فضائی حدود کے استعمال اور انصرامی ذخیرہ اندوزی (Logistic Build- up) سپورٹ اور ائر لائنز آف کمیونی کیشن (ALOC) بھی فراہم کرے۔ یہ سب کچھ کیا گیا اور 2003ء کے اواخر تک امریکی، افغانستان میں پوری طرح جم کر جاگزیں ہو گئے۔ اب ان مستقروں کی ضرورت بس واجبی سی رہ گئی تھی ماسوائے شمسی بیس کے کہ جہاں سے امریکہ،افغانستان کے لئے ڈرون اڑا رہا تھا یا پاکستان کے ان چند محدود قبائلی علاقوں کو استعمال کر رہا تھا جو القاعدہ اور طالبان کے خلاف ان ڈرونوں کے اہداف تھے۔ پاکستان اور پاک فضائیہ کا رول صرف یہ رہ گیا تھا کہ وہ فضائی حدود کی کلیئرنس دے اور اس عمل میں کوآرڈی نیشن (ربط و ارتباط) کرے۔ چنانچہ امریکیوں سے اس ربط و ارتباط کے لئے فضائیہ کے افسروں کا ایک چھوٹا سا گروپ متعین کر دیا گیا کہ وہ امریکی ضروریات کا جائزہ لے اور مدد فراہم کرے۔ فضائی حدود کی ایک مختصر سی پٹی (Belt) امریکی ڈرونوں کے استعمال کے لئے پاکستان کے مغربی قبائلی علاقہ میں مختص کی گئی۔ اسی طرح کے انتظامات OEF (آپریشن اینڈیورنگ فریڈم) کے تحت افغانستان میں بھی زیرِ عمل لائے گئے جو امریکی گراؤنڈ فورسز کے لئے تھے اور افغانستان کی حدود کے اندر روبہ عمل لائے جا رہے تھے۔ تاہم یہ اقدامات ہمیشہ اتنے موثر اور کارگر نہیں ہوتے تھے جتنے کہ پلان کئے جاتے تھے۔ ان کی مثال ایبٹ آباد اور سلالہ کے آپریشنوں میں واضح طور پر سامنے آتی ہے۔


2004ء کے اوائل میں پاک آرمی نے پاک فضائیہ کو اپروچ کیا۔ ایک آپریشن  جو جنڈولا ایریا میں لانچ کیا گیا تھا وہ کچھ ایسا کامیاب نہیں جا رہا تھا اس کے لئے آرمی نے فضائیہ کی مدد مانگی۔ جب سے گراؤنڈ آپریشنز شروع ہوئے تھے یہ پہلا موقع تھا کہ آرمی نے فضائیہ سے براہِ راست مدد طلب کی تھی۔ چنانچہ اس ایریا میں فضائیہ کے جو عناصر موجود تھے انہوں نے آرمی کی طرف سے بتائے گئے اہداف پر گولہ باری (Strafing) کی۔ آرمی کا ائرسپورٹ کا تصور وہی روائتی اور پرانے والا تھا لیکن اب تو ایک عرصے سے نئی ٹیکنالوجی متعارف ہو چکی تھی اور اس کے استعمالات کے قواعد و ضوابط بھی نئے تھے۔ فضائیہ نے آرمی کو پری سیژن انگیج منٹ (Precision Engage ment) کی پیشکش کی اور بتایا کہ اس کے نتائج 100% درست ہوں گے بشرطیکہ جو انٹیلی جنس فراہم کی جائے وہ درست ہو اور اس کی بنیاد، آپریشنل ترجیحات پر ہو۔ محض ہواؤں میں تیر چلانا اور اسے شو آف فورس کا نام دینا نہ تو موثر ہوگا اور نہ ہی مفید مطلب ثابت ہوگا۔


چنانچہ دونوں سروسوں (آرمی اور ائر فورس) نے بہت جلد ائر فورس کے جدید تصورات کو گلے لگایا اور ایسا میکانزم قائم کر لیا جس سے اہداف کی نشان دہی، ترجیح اور مشن کوارڈی نیشن بہت بہتر ہو گئی۔ انٹیلی جنس پلاننگ اور تکمیلِ مشن ایک ایسا شعار بن گئی جس سے ٹیکٹیکل اور آپریشنل کامیابیاں ملنی شروع ہو گئیں۔ دہشت گرد گروپ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے اور اس طرح سٹرٹیجک کامرانیوں کا حصول ممکن ہوگیا۔ یہ موثر کامیابی اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ ہم نے آنے والے برسوں میں مسلسل اور متواتر ان SOPsپر عمل کیا۔ جب پاک آرمی شدت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الجھی تو مربوط لائحہ عمل کو روبکار لانے کا میکانزم بہتر ہوتا چلا گیا۔ لیکن پاکستان کے اندر داخلی محاذ پر یہ دہشت گرد گروپ جو کارروائیاں کرتے رہے ہم ان کا زیادہ کچھ نہ بگاڑ سکے۔ دریں اثناء پاک فضائیہ کے آپریشن، جنڈولا۔ شکئی۔ سارا روغا ایریا میں جاری رہے۔دریں اثناء امریکہ افغانستان میں اپنی لڑائیاں لڑتا رہا۔


اس ریجن میں عسکریت پسندوں کی توسیع روکنے کے لئے ان کے اورجنل ایریا سے ورے (Beyond) آرمی، مزید یونٹیں ڈیپلائے کرتی رہی۔ لیکن حیرت ہے کہ اس نے امداد کے لئے ائر فورس کو آواز نہ دی۔ بعد میں آرمی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ”2004ء سے لے کر 2007ء تک آرمی نے فضائیہ کو نہ بلا کر غلطی کی“۔ جب 2008ء میں سوات میں معاملات بگڑنے لگے اور یہ پتہ چلا کہ عسکریت پسند انصرامی اور ٹیکٹیکل اعتبار سے ان علاقوں میں زیادہ مضبوط ہو کر جم چکے ہیں تو ائر فورس کو ایک بار پھر بلایا گیا کہ دہشت گردوں کو ان کے مضبوط مورچوں سے نکال باہر کیا جائے۔ جب ایسا ہو گیا تو آرمی نے زیادہ آسانی سے ان علاقوں (وادیء سوات) کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا جو اسلام آباد سے صرف 100کلومیٹر دور تھے۔ اس کے بعد آرمی اور فضائیہ نے ایک موثر باہمی ربط وارتباط کے ذریعے 2014ء میں ضرب عضب کے ذریعے پہلے جنوبی وزیرستان اور پھر شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا۔
پاکستان کی ملٹری (آرمی اور ائر فورس)کی سکھلائی کی قوس (Curve) پہلے پہل مائل بہ نشیب و فراز رہی اور جب اس نے اس ایریا کی صفائی کا قصد کیا تو ریاست کے خلاف یہ عناصر شدید بداندیش اور زہر آلود (Malignant) ہو چکے تھے۔


آرمی اور ائر فورس دونوں نے اس طرح کے اسباق سیکھنے میں دیر نہ لگائی۔ فضا سے پری سیژن ہتھیاروں سے زمینی اہداف کو نشانہ بنانے میں سو فیصد کامیابی کا حصول ایک گراں قدر اثاثہ ثابت ہوا۔ اس طرح کی کارروائیوں کے لئے ائر فورس کو شائد پہلی بار استعمال کیا گیا تھا اور اس سے غیر روائتی جنگ میں بھی اسی طرح کے فوائد حاصل کئے گئے تھے۔ روائتی اور غیر روائتی طریقہ ہائے جنگ کو ملا جلا کر استعمال کرنے سے اس قبائلی پٹی کو عسکریت پسندوں سے پاک کرانے میں جو کامیابی حاصل ہوئی وہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی تھی۔ اس کے مقابلے میں دوسری طرف امریکہ / ناٹو کی طرف سے بالکل اسی طرز کے جو آپریشن لانچ کئے گئے اُن میں امریکی اور ناٹو فورسز کی صلاحیت و اہلیت اگرچہ ہم سے زیادہ تھی لیکن تفویض کردہ آپریشنل مقاصد اس لئے حاصل نہ کئے جا سکے کہ ان کے اہداف کو کسی قطعی اور حتمی اعتبار  سے واضح نہیں کیا گیا تھا۔ ان آپریشنوں کے مقاصد کے حصول کا دار و مدار امریکی طرزِ جنگ پر تھا نہ کہ افغان طرزِِ جنگ پر۔ اور اسی فرق نے اس 20سالہ جنگ میں اس واضح گیپ کی نشاندہی کی کہ کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا جو نہ کیا جا سکا۔


دریں اثناء پاک فضائیہ سیکھتی رہی اور خوب سے خوب تر کی طرف گامزن رہی اگر ہمارے پاس سروے لینس (Surveilance) اور اٹیک کرنے کے لئے ڈرونوں کی مسلسل موجودگی نہ تھی تو ہم نے اپنے ہاں جو بھی ڈرون یا دوسرے پلیٹ فارم موجود تھے ان کو تراش خراش کر اور ان میں ترمیم و اصلاح کرکے ان کو فی الفور استعمال کیا۔ یہ عجلت اس لئے ضروری تھی کہ اس قسم کی جنگ میں ٹارگٹ ہمیشہ گریز پا (Fleeting) رہتے ہیں، کسی ایک جگہ قیام نہیں کرتے اور ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بات پاک فضائیہ کے منصوبہ سازوں اور انجینئروں کے کریڈٹ میں جائے گی کہ انہوں نے خانہ ساز وسائل و افکار کو اپنایا اور ایسے ذرائع ایجاد و استعمال کئے جن سے مشترکہ مشنوں کے مقاصد کا حصول ممکن ہوا۔ (مشترکہ مشنوں سے مراد آرمی اور ائر فورس کے مشن تھے)


ان مشنوں کی تکمیل میں پروفیشنل جواں سال مردوں اور خواتین کا برابر برابر کا حصہ ہے جنہوں نے پاکستان کو ہر لحاظ سے ایک بلند مقام پر سرفراز کیا۔ ابھی ہمارے چیلنج باقی ہیں۔ ان کا ایک مرحلہ مکمل ہوا ہے اور ہمیں آئندہ بھی اپنی اسی قوتِ ایجاد و اختراع کو کام میں لا کر اگلے مراحل سر کرنا ہوں گے۔ اس موجودہ جنگ میں اور نیز آنے والی جنگوں میں پاک فضائیہ کو کامیابی کے عروج پر پہنچنے کے لئے اسی لیول کی لگن کی ضرورت ہو گی۔ پاک فضائیہ کی بنیادیں اور ڈاکٹرین دونوں مضبوط اور قومی ہیں۔ ہمیں اس کمالِ فن کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی فراموش کرنا چاہیے…… انڈیا اپنی اسی رام کہانی پر قائم ہے جس پر وہ تھا جبکہ ہم نے اپنے مغرب میں ایک نئی داستانِ امیر حمزہ  رقم کر دی ہے“۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -