”شیم آن سندھ گورنمنٹ“۔۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے تجاوزات کیس میں ریمارکس

”شیم آن سندھ گورنمنٹ“۔۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے تجاوزات کیس میں ریمارکس
”شیم آن سندھ گورنمنٹ“۔۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے تجاوزات کیس میں ریمارکس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سپریم کورٹ نے تجاوزات کیس میں متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کو ایک سال کا وقت دے دیا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے صوبائی حکومت پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے پورا کراچی گند سے بھرا ہے،کیا یہ کراچی شہر ہے، یہ تو گاربیج دکھائی دیتا ہے،حکمران طبقے کو شہر کی کوئی پرواہ نہیں ہے،’ ’شیم آ ن سندھ حکومت“۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری کراچی میں چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الحسن نے تجاوزات کیس کی سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔
 چیف جسٹس گلزار احمدنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ گجر نالہ پیش رفت رپورٹ کہاں ہیں؟جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ بورڈ آف ریونیو کی جانب سے رپورٹ جمع کرائی ہے،258ایکڑز اراضی پر متاثرین کو متبادل زمین مختص کردی ہے،چھ ہزار سے زائد گھر بنائے جائیں گے،سندھ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہے سندھ حکومت، کہتے ہیں پیسے نہیں ہیں ورلڈ بینک کے کتنے منصوبے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا،کھربوں روپے کی باہر سے مددآتی ہے، کیا کرتے ہیں ، مطلب آپ کے پاس پیسے نہیں تو گورنمنٹ فنکشنل نہیں، عوام کے لیے پیسے نہیں، باقی سارے امور چلا رہے ہیں، وزار اور باقی سب کے لئے فنڈز ہیں۔
 ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاون واجبات سے رقم ملے گی تو منصوبے پر کام شروع کردیں گے،60ارب روپے اگر سپریم کورٹ ریلیز کردے تو کام شروع کر دیتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ان پیسوں پر امید لگا لی، کیا آپ کے پاس پیسے نہیں؟،آپ انتہائی غیر انتہائی ذمہ دارانہ بیان دے رہے ہیں،آپ کی ترجیحات کچھ اور ہیں،جو پیسے سپریم کورٹ نے وصول کرائے آپ نے ان پر نظر رکھ لی ہے،سلمان طالب الدین نے کہا کہ بحریہ ٹاون کے واجبات سندھ حکومت ہی کے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےسپریم کورٹ نے طے کرنا ہے کہ وہ پیسے کہاں خرچ کرنے ہیں ، وہ آپ کے نہیں ہیں، ہم نے طے کرنا ہے کہ اس پیسے کا کیا کرنا ہے،ایک ایک پیسہ سپریم کور ٹ طے کرے گی کہ کہاں لگے گا،کھربوں روپے کے بجٹ سے آپ کے پاس 10ارب نہیں،آپ سندھ حکومت ہیں، ایڈووکیٹ جنرل صاحب،یہ سب ذمہ داری آپ کی تھی، سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔
عدالت کا کہناتھا کہ ابھی پیسے آئے نہیں، سارا جہان لینے آگیا،جب گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آجاتے ہیں،اگر زلزلہ یا سیلاب آجائے تو پھر کیا کریں گے؟، کوئی آفت آجائے تو کیا ایک سال تک بجٹ کا انتظار کریں گے۔
عدالت نے پوچھا کہ جنہوں نے زمینیں الاٹ کیں ، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا؟،جس پرایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ یہ تو 40سال پرانا مسئلہ ہے۔
 جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسارکیا کہ اس طرح سے شہر چلاتے ہیں؟، ایک انچ کا بھی کام نہیں ہوا ہے، حکمرانی کرنے والے جانتے ہی نہیں کہ شہر کو کیسے چلایا جاتا ہے۔کچھ پتہ نہیں ہے،غیر قانونی قبضے ، سڑکیں بدحال، کچھ نہیں ،سندھ حکومت مکمل بینک کرپٹ کی جانب کھڑی ہے،اس سب کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے،سندھ حکومت کو شرم آنی چاہئے،جس بلڈنگ کو اٹھاﺅ اس کا براحال ہے،سڑکیں ٹوٹیں، بچے مررہے ہیں، یہ کچھ نہیں کرنے والے،یہی حال سندھ اور وفاقی حکومت کا بھی ہے،سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں،سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کا م تو کریں،اگر لوگوں کو سروس نہیں دے سکتے تو کیا فائدہ۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ حکومت کے لئے انتہائی سخت ریمارکس دیئے کہ ’ شیم آن سندھ گورنمنٹ‘، پورے کراچی کو کچرا بنادیا ہے جا کر دیکھیں،آپ لوگوں نے کراچی شہر کو سیاست کی نذر کردیا ۔شہر میں گڑا ابل رہے ہیں اور تھوڑی سے بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ متاثرین کو گھر دینے تک وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاﺅس الاٹ کردیتے ہیں،لوگوں کو کہتے ہیں وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاﺅس کے باہر ٹینٹ لگالیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو برا ہ راست حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اطمینان بخش جواب نہ دے سکے،متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے،سندھ حکومت دستیاب وسائل سے بحالی کا کام کرے،وزیر اعلیٰ سندھ فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور متاثرین کی بحالی کیلئے رقم کا انتظام کریں۔