پنجاب کے کئی افسران کا شہبازشریف کا استقبال کرنے سے انکار لیکن پرویز الٰہی نے ایک بڑے افسر کے ذریعے کیا پیغام پہنچایا؟ تہلکہ خیز دعویٰ

پنجاب کے کئی افسران کا شہبازشریف کا استقبال کرنے سے انکار لیکن پرویز الٰہی ...
پنجاب کے کئی افسران کا شہبازشریف کا استقبال کرنے سے انکار لیکن پرویز الٰہی نے ایک بڑے افسر کے ذریعے کیا پیغام پہنچایا؟ تہلکہ خیز دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم : محسن گواریہ )  وفاق اور پنجاب میں مختلف الخیال حکمران ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی میدان میں ضرور لڑ یں،  یہ ان کا حق  حکمرانی ہے مگر لڑائی میں وہ  حربے نہ آزمائیں جو ملک و قوم کو نقصان  پہنچائیں،وضع داری اور حوصلہ دکھائیں،ابھی چند ہفتوں کی بات ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف  پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لئے نکلے تو کئی افسروں نے ان کا  اپنے طور پر استقبال کرنے سے انکار کر دیا، پنجاب کے سب سے بڑے افسر نے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی سے اس سلسلے میں راہنمائی چاہی تو  انہیں نہ صرف استقبال اور مکمل پروٹوکول دینے کو کہا گیا بلکہ یہ بھی کہا کہ میرا سلام کہیے گا اور انہیں  بتائیے  گا کہ سیلاب اور بارش زدگان کے  معاملے پر  ہم سب مل کر چلیں گے، اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں ہوگی۔

وفاق کی طرف سے پنجاب  کو اس مثبت پیشکش  کا جواب یہ دیا گیا کہ اس کو  کام  کے لئے  مطلوبہ افسر دینے ہی  بند کر  دئیے گئے، جو موجود ہیں انہیں بھی زبردستی  وفاق میں رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کئے جا رہے ہیں،پنجاب میں اس وقت افسرانہ کال ہے ایک ایک اچھے افسر کو کئی کئی چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے،  ان حالات میں حکومت کس طرح ڈلیور کرے گی؟ وفاق میں بیٹھے سینئر افسروں کو اس پر غور کرنا چاہئے اور مل جل کر اس دفتری نظام کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ ایوان وزیر اعظم کو چلانیوالے موجودہ اور سابق دو اہم افسر اچھے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں انہیں سوچنا ہو گا کہ ایک بار اگر سسٹم میں غلط مثال سیٹ کر دی جائے تو اس کا نقصان تا دیر جاری رہتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن اور ایوان وزیراعظم کو پنجاب کے انتظامی معاملات کے لئے مطلوبہ افسر دینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔  

ساڑھے تین کروڑ شہریوں کے پاؤں تلے زمین ہے نہ سر پر چھت،علاج معالجہ کی سہولت نہ دوا دارو دستیاب،بارش اور دھوپ کی سختی اپنے لاغر نحیف نزار بدن پر سہتے ان کی روح بھی زخمی ہو چکی ہے،ان مظلوموں کے گھر ہی نہیں کاروبار بھی پانی نگل گیا،اربوں روپے کی کھڑی  تیار فصلیں پانی کے آسیب کی نذر ہو گئیں،آج بھی ان افراد کی اکثریت چاروں جانب سے پانی میں گھری سڑکوں اور کھلے میدانوں میں زندگی سے مایو س رات دن بسر کر رہے ہیں،اس پر ستم بھوک کا عذاب،کھڑے پانی نے وبائی امراض کے جن کو بے قابو کر دیا،

ملیریا، ڈینگی، کورونا، ڈائریا،پیٹ،جلد،گلے،آنکھوں کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں،ایسے میں ان کو ضرورت ہے اپنی حکومت کی طرف سے ایثار،ہمدردی،امداد کی،لیکن ہمارے ارباب حکومت اور سیاستدانوں کا چلن ہی الگ ہے،یہ وقت تھا ایک ہونے کا ثبوت دیتے،اپنی اپنی جگہ اپنی اور اپنی حکومت کی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کو آگے بڑھتے مگر ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“ اور اب اس ایشو پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔
ان  بد ترین حالات میں چودھری پرویز الٰہی خوشگوار ہواء  کا جھونکا  ہیں، سب سے پہلے انہوں نے ریلیف فنڈ قائم کیا، روزانہ  عطیات جمع کر رہے ہیں، بڑے بھائی کا فرض نبھاتے ہوئے بلوچستان  کے بھائیوں کیلئے اس کے باوجود گندم کی بھاری مقدار بھجوائی جبکہ پنجاب میں بھی قلت کا خدشہ ہے،لیکن بڑا کام جو  چودھری صاحب نے کیا وہ اپنی انتظامی ٹیم کو منظم کرنا ہے،ملک اور صوبہ آج جن حالات سے دوچار ہے اس میں ایک منظم متحرک فعال اور منضبط ٹیم ہی بہتر طور پر ڈیلیور کر کے مصیبت زدہ بھائیوں کے مصائب کم کر سکتی ہے،اور انہوں  نے جو بھی دستیاب ٹیم تھی اس کے ارکان کو اعتماد  دیا۔

صوبائی  سیکرٹریز کی کانفرنس بلانا اپنی نوعیت کی ایک  منفرد روائت تھی،سرکاری مشینری کے انجماد کو توڑنے اور ان کو اعتماد دینے کیلئے فیصلہ ہواء  کہ کسی بھی سمری اور فائل پر زیادہ سے زیادہ دو دن میں فیصلہ صادر کیا جائے گا۔یہ وزیر اعلیٰ کا بیوروکریسی سے پہلا با ضابطہ اور ماحول سے کشیدگی اور بد اعتمادی کے خاتمے کی کامیاب کوشش تھی،چودھری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے سیزنڈ سیاستدان اوروزارت اعلیٰ کی اونچ نیچ سے آگہی رکھنے والے کہنہ مشق انسان ہیں،ماضی میں بھی بیوروکریسی سے مل کر وہ خاموشی سے کام کرتے رہے اور کامیاب ٹھہرے،آج بھی ان کے عوامی بہبود کے منصو بوں سے لاکھوں لوگ روزانہ مستفید ہو رہے  ہیں،

نیب اور تبادلوں سے خوفزدہ بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کیلئے ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت تکمیل کی شرط شائد بیورو کریسی کی سب سے بڑی خواہش تھی،گدھا گھوڑا برابر نہیں ہو سکتے جو کام کرے گا اس کو اعزاز اور اکرام بھی ملے گا اور ستائش بھی،پہلی مرتبہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے بیوروکریسی پر اعتماد کر کے ترقیاتی فنڈز کے بر وقت استعمال کی اہمیت کو محسوس کیا گیا،حکمرانوں کی معمولی ناراضی پر تبادلہ کی بھینٹ چڑھنے والے افسر وں کو کسی بھی عہدے پر تعیناتی کی مدت کو یقینی بنانے کا وعدہ اس بات کا غماز ہے کہ پرویز الٰہی بیوروکریسی کے خدشات اور تحفظات سے آگہی رکھتے ہیں،مدت تعیناتی کی مہلت ملے گی تو کوئی افسر کچھ کارکردگی دکھا سکے گا،بے یقینی اور مخمصے کا شکار کوئی افسر کیسے ڈیلیور کر پائے گا یہ بات حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔

وزیر اعلیٰ آفس میں بھی فائلوں کے جمود کو توڑنے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور ایک میکنزم کی بات کی گئی،تمام سیکرٹری صاحبان کو دن میں ڈیڑھ گھنٹہ صبح ساڑھے نو سے گیارہ بجے تک اپنے آفس میں عوام کی شکایات سننے اور مسائل حل کرنے کا پابند بنایا گیا ہے،مہنگائی پر کنٹرول کیلئے مجسٹریسی نظام کی بحالی کی اہمیت کو تسلیم کیا جانا حقائق سے آگہی کا ایک ثبوت ہے،وزیر اعلیٰ نے ابھی صرف تین باتوں کو اہمیت دی ہے،

مہنگائی پر قابو پانا جو آج عام شہری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اچھی حکومت کا قیام،جو نہ صرف عام شہریوں بلکہ با اثر طبقات کی اور ملک کی بھی ضرورت ہے،ایجنڈا کا تیسرا پوائنٹ ہے ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت تکمیل،ترقیاتی منصوبے دراصل شہر اور دیہات دونوں کی دیرینہ ضرورت ہے اس سے نہ صرف ترقی کے راستے کھلیں گے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے خوشحالی آئیگی،42محکموں کے سیکرٹریز نے اس کانفرنس میں شرکت کی، وزیر اعلیٰ کو بیوروکریسی کے تحفظات سے آگاہ کیا،وزیر اعلیٰ نے اپنی انتظامی ٹیم کو بتایا کہ ان کی خواہش عوامی بہبود اور ترقی و خوشحالی ہے اور میری ٹیم کے بیوروکریٹ اس مشن کو پورا کرنے کیلئے سکون اور اطمینان سے بلا خوف و خطر خدمات انجام دیں،

افسر ملازم میرے دست و بازو اور میری طاقت ہیں،عوام کو دہلیز پر مسائل کا حل دینے کیلئے ہم اجتماعی سوچ کے ساتھ منسوبوں کو عملی شکل دیں گے،یہ ہے وہ اعتماد جو اس ملک اور صوبے کی بیوروکریسی کی خواہش تھی،کسانوں کی مشکلات، اراضی کے معاملات، جیل ریفارمز،تعلیمی اداروں میں منشیات کے آزادانہ استعمال کا حل حسن تدبیر اور پختہ ارادہ سے ہی ممکن ہے۔اس موقع پر انتظامی معاملات چلانے،گراں فروشی کو روکنے کے لئے میجسٹریسی سسٹم کو بھی اس کی روح کے مطابق لانے پر بھی غور کیا گیا۔

۔

نوٹ: یہ کالم نویس کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔