الیکشن اخراجات سے بڑی قیمت سپریم کورٹ کے فیصلے کی چکا رہے ہیں جس کے ذریعے انتخابات کو روکا گیا ، فواد چودھری

الیکشن اخراجات سے بڑی قیمت سپریم کورٹ کے فیصلے کی چکا رہے ہیں جس کے ذریعے ...
الیکشن اخراجات سے بڑی قیمت سپریم کورٹ کے فیصلے کی چکا رہے ہیں جس کے ذریعے انتخابات کو روکا گیا ، فواد چودھری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے  استعفوں کی منظوری سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیا ل کی رائے کو  آئین سے متصادم قرار دیدیا ، فواد چودھری نے کہا کہ  الیکشن اخراجات سے بڑی قیمت سپریم کورٹ کے فیصلے کی چکا رہے ہیں جس کے ذریعے انتخابات کو روکا گیا ۔

آج سپریم کورٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے  پاکستان تحریک انصاف کو واپس اسمبلیوں میں جانے کا مشورہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ   پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے،پی ٹی آئی کو اندازہ ہے 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے کیا اخراجات ہونگے؟ ، لوگ سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں، ان کے پاس پینے کا پانی ہے نہ کھانے کو روٹی،  بیرون ملک سے لوگ متاثرین کی مدد کیلئے آ رہے ہیں، ملک کی معاشی حالت بھی دیکھیں۔ 

چیف جسٹس کے ریمارکس پر رد عمل دیتے ہوئے فواد چودھری نے سماجی رابطے کی  ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ  احترام کے ساتھ چیف جسٹس کی آبزرویشن آئین سے متصادم ہے ، پانچ سال اسمبلی کی مدت ہے تاآنکہ اس مدت سے پہلے توڑ دی جائے اور عوام اس اسمبلی کو نمائندہ نہیں سمجھتے ،  الیکشن پر اخراجات سے کہیں زیادہ بڑی قیمت ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی دے رہے ہیں جس کے ذریعے انتخابات کو روکا گیا۔

خیال رہے کہ  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے    پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کو مشورہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جلد بازی نہ کریں، سوچنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، پارٹی سے ہدایات لیں.  جسٹس اطہر من اللہ نے گہرائی سے قانون کا جائزہ لیکر فیصلہ دیا ہے، سپیکر کے کام میں اس قسم کی مداخلت عدالت کیلئے کافی مشکل کام ہے۔ وکیل فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ ڈ پٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک انصاف کے استعفے منظور کر لیے تھے، استعفے منظور ہو جائیں تو دوبارہ تصدیق نہیں کی جا سکتی،  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قاسم سوری کا فیصلہ اسی ارادے سے لگتا ہے جیسے تحریک عدم اعتماد پر کیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ قاسم سوری کے فیصلے میں کسی رکن کا نام نہیں جن کا استعفیٰ منظور کیا گیا ہو،تحریک انصاف بطور جماعت کیسے عدالت آ سکتی ہے؟ ، استعفیٰ دینا ارکان کا انفرادی عمل ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  ریاست کے معاملات میں وضع داری اور برداشت سے چلنا پڑتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی فیصل چودھری نے کہا کہ شکور شاد کے علاوہ کسی رکن نے استعفے سے انکار نہیں کیا، من پسند حلقوں میں انتخابات نہیں ہوسکتے؟،  ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ  سپیکر کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا  سپیکر کو کبھی پوچھا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کیوں نہیں کر رہے؟ ، سپیکر کا اپنا طریقہ کار ہے ہم کیسے مداخلت کر سکتے ہیں؟ ، ہر ادارے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے، عام انتخابات کیلئے پورا نظام ہوتا ہے،  ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ بھی کم ہوتا ہے۔ہائیکورٹ کے حکم میں واضح کہا گیا کہ سپیکر کے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کی قانونی حیثیت ہے، بظاہر سپیکر کے اختیار میں مداخلت سے آرٹیکل 69 متاثر ہو سکتا ہے،  عدالت کو مطمئن کریں کہ ہائیکورٹ کے حکم میں کیا کمی ہے۔

   عدالت نے پی ٹی آئی کو مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف کیس تیار کرنے کا ایک اور موقع دے دیا۔

مزید :

اہم خبریں -قومی -