پنجاب یوتھ فیسٹول
پنجاب یوتھ فیسٹیول کا انعقاد ہر سال مارچ کے مہینے میں قذافی سٹیڈیم میں کیا جاتا ہے۔ اس تقریب کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب نے اکتوبر 2012ءمیں کیا تھا۔ یہ فیسٹیول پہلی بار نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ اس فیسٹیول میں تقریباََ 14813 لوگوں نے قومی ترانہ پڑھا اور گینز ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروایا ۔ اس تقریب میں سب سے زیادہ لوگوں نے قومی ترانہ پڑھا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ انڈیا کے لوگوں نے قائم کیا تھا ، جس میں 16000 لوگوں نے حصہ لیا اور اپنا قومی ترانہ پڑھا ۔ یوتھ فیسٹول کی میزبانی صوبہ پنجاب کرتاہے اور اس میں تمام دیگر صوبوں کے نوجوان شرکت کرتے ہیں ۔پنجاب بڑا صوبہ ہونے کی بنا پر بڑے بھائی کا کردار بخوبی سرانجام دیتا ہے، لیکن چھوٹے بھائیوں کی غیر موجودگی میں کوئی بڑے بھائی کا کردار بھی ادا نہیں کر سکتا۔اس فیسٹیول کا افتتاح اگر وفاق کی علامت صدر پاکستان یا مرکزی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اس پورے فیسٹیول کے روح رواں ہیں۔ یوتھ فیسٹول کا مقصد نوجوانوں میں محنت ، لگن، مل کر کام کرنے ،اپنے مستقبل کے لئے انتھک محنت کرنے اور اپنی تخلیقی صلاحتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس تقریب میں سپیشل (معذور) لوگوں کو بھی اپنی صلاحتیں دکھانے کا بھر پور موقع ملتا ہے، جنہیں ہمارا معاشرہ معذور سمجھ کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ اگرچہ یہ معذور لوگ ہوتے ہیں ،لیکن ان میں عام انسانوں سے زیادہ صلاحتیں اور جوش و جذبہ ہوتا ہے۔ کچھ کر دکھانے کی لگن ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور جب بھی انہیں مواقع فراہم کیا جاتا ہے تو یہ دنیا کو حیران و پریشان کر دیتے ہیں۔
سکولوں ،کالجوںاور یونیورسٹیوں کے طلباءو طالبات کو صحت مند تخلیقی سرگرمیاں فراہم کرنے کے علاوہ عام نوجوانوں کو بھی مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نوجوان ہمارے ملک اور معاشرہ کی واضح اکثریت ہیں۔کھیلوں کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی خدمت کرنا بھی نوجوانوں کا فرض اولین ہونا چاہیے۔ حالیہ یوتھ فیسٹول میں پاکستان کے قابل فخر لوگوں نے اپنی صلاحتوں کا لوہا منواتے ہوئے آٹھ مختلف شعبوں میں گینز ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، جبکہ لاہور ایکسپو سینٹر میں بارہ مختلف شعبوں میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کے لئے نوجوانوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ یہ فیسٹیول لوگوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کا بھی ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔ جن ثقافتی تہواروں خاص کر پتنگ بازی پر حکومت پنجاب نے پابندی لگا رکھی ہے ، اِن کی بھی حفاظتی انتظامات پر سختی سے عمل درآمد کرواتے ہوئے اجازت دینی چاہیے، کیونکہ جان سے بڑھ کر کوئی قیمتی اور نایاب چیز دنیا میں نہیں ہے۔
کھیلوں اور تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ دیگر صحت مند سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، مثلاً ایک بہت ہی فائدہ مند اور صحت مند تفریح شجر کاری بھی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سنگاپور کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جہاں ہر بچے کی پیدائش پر اس کے نام کا ایک درخت لگایا جاتا ہے اور اس درخت کی پرورش اور حفاظت اس بچے کے ذمہ ہوتی ہے۔ وہاں یہ تصور کیاجاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ بچہ وفات پا جائے تو وہ اس کے نام سے اگائے یا لگائے گئے درخت میں زندہ رہتا ہے۔ اس طریقے سے سنگا پور کے عوام نے اپنے ملک کو سر سبز و شاداب بنا لیا ہے۔ قدیم مصری تہذیب کی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اُس کے نام سے سات درخت لگائے جاتے تھے۔ بیٹی کے ساتھ ساتھ وہ سات درخت بھی جوان ہو جاتے تھے اور بیٹی کی شادی کے موقع پر وہ سات درخت کاٹ کر اُسے جہیز میں دے دیئے جاتے تھے، تاکہ اِنہیں اپنے استعمال میں لا سکے ۔ اِسی طریقے سے وادیءنیل کے صحراﺅں کو سر سبز و شاداب کیا گیاتھا۔
پاکستان کے نوجوانوں کو شجر کاری کے ذریعے سبز انقلاب برپا کرنے کے لئے بآسانی مصروف کیا جا سکتاہے، لیکن کامیابی کے لئے افسر شاہی کو لگام ڈالنا پڑے گی، یہ نہ ہو کہ دیگر پروگراموں کی طرح یہ بھی کاغذی شکل اختیار کر لے۔اس طرح کے پروگراموں سے نوجوان کو احساس ہو گا کہ وہ بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پورکردار ادا کر رہے ہیںاور اُنہیں بھی اپنی انفرادی صلاحتیں دیکھانے کا موقع ملے گا۔ نوجوانوں کو یہ یقین دلانا بے حدضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کویوتھ فیسٹیول جیسے پروگرام منعقد کرنے پر سراہنا چاہیے۔
مکرمی!مَیں چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ ہزاروں مجبور اور بے بس سرکاری ملازمین کی حالت زار کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں، جو ایل ڈی اے کے ہاتھوں کئی سال سے خوار ہو رہے ہیں۔ ہزاروںلوگوں کی طرح میں نے بھی آج سے گیارہ سال پہلے ایل ڈی اے کی سکیم ایونیو ون میں پلاٹ خریدنے کے لئے رقم جمع کروائی تھی مگر مجھے آج تک اپنے پلاٹ کا قبضہ نہیں مل سکا۔ ایل ڈی اے والوں سے رابطہ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ مختلف عدالتوں میں ہزاروں پلاٹوں کے مقدمات چل رہے ہیں، اس لئے ان کے فیصلے تک آپ کو قبضہ نہیں دیا جاسکتا۔ پتہ نہیں ایل ڈی اے کا یہ بہانہ درست ہے یا غلط۔ اس شدید مہنگائی کے دور میں میرے لئے مکان کا کرایہ ادا کرنا مشکل ہوتا جاتاہے۔ میری چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیں اور تمام متعلقہ محکموں کو حکم جاری کریں کہ ہزاروں سرکاری ملازمین سے وصول کی جانے والی رقم کے بدلے میں انہیں فوری طور پر پلاٹ الاٹ کئے جائیں، اندازہ لگائیں کہ جس سرکاری ملازم نے قرض لے کر اس امید پر ایل ڈی اے کوپیسے جمع کرائے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے اہلِ خانہ کو سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر ہوگا، اب وہ اور ان کے گھر والے کس کرب سے دو چار ہوں گے۔ ہمیں اپنی رقم کی واپسی بھی قبول نہیں کیونکہ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ہمیں جلد از جلد پلاٹ دئیے جائیں....(الاٹی پلاٹ نمبر-691ایل ، اعجاز حیات ایونیو ون لاہور)