تاجدارِ صداقت کے اوصاف و کمالات
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ تمام جہانوں کے لئے نبی رحمت بنا کر بھیجے گئے ، آپ تمام نبیوں کے امام اور تمام رسولوں کے سردار ہیں ، آپ کو بہت سی خوبیوں اور اَن گنت خصوصیات وکمالات سے نوازا گیا ، آپ کے مبارک سر پر ختم نبوت کا تاج سجایا گیا، آپ کو اپنے دین کی اشاعت اور مدد و نصرت کے لئے ایسی جماعت عطا کی گئی جسے حضرات صحابہ کرام ؓ کہا جاتا ہے۔ آپ سے قبل کسی نبی کو ایسی پاکیزہ اور قدسی صفات جماعت نہیں ملی، تمام صحابہ ؓ خیر ِ اُمت تھے ، تمام صحابہ ؓ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، تمام صحابہ عادل اور اخلاق محمدی کا پر تاﺅ تھے، مگر جس طرح ایک گلدستہ کے مختلف پھولوں میں ہر پھول کی خوشبو دوسرے سے جُدا اور منفرد ہے، اِسی طرح صحابہ ؓ میں ہر صحابی کی شان، عظمت، مزاج اور اخلاق و عادات دوسرے سے مختلف ہے، صحابہ ؓ میں سب سے افضلیت کا شرف اُسے حاصل ہوا جسے نبی پاکﷺ نے زبانِ نبوت سے انبیاءکے سوا تمام انسانوں سے افضل قرار دیا، جسے سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف ملا، جسے صدیق اکبر ؓ کا لقب عطا ہوا ، جسے یار غار و مزار کا تمغہ ملا ، جس نے بغیر کسی پس وپیش کے نبی کی نبوت کا اقرار کیا، جس نے ایمان لانے کے بعد نبی کی صحبت اور دیدار کو دنیا کی قیمتی ترین متاع قرار دیا، جو نبی کے سفر وحضر کا رفیق بنا، جو مزاج شناسِ نبوت تھا، جو محبوب ِبارگاہ اور محرم اسرارِ نبوت تھا ۔
نبی پاک ﷺ اور حضرات شیخین حضرت ابوبکر صدیق ؓ و حضرت عمر فاروق ؓ کے مزاج میں یکسانیت تھی اور یہ تینوں ہم مزاج تھے، صاحب ِ مشکوة، امام محمد بن عبداللہ ؒ نے ایک حدیث ذکر کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن تینوں حضرات کے مزاج وحالات میں بہت زیادہ مماثلت اور یکسانیت پائی جاتی تھی اور یہ ہم مزاج ہونے کی نشانی ہے گویا یہ ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی پاکﷺ کی وفات سے چند روز قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ میرے گھر میں تین چاند اُترے ہیں،مَیں نے خواب اپنے اّبا جی حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے بیان کیا،انہوں نے اس کی تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا: کہ تیرے گھر میں دنیا کے تین بہترین افراد دفن ہوں گے، چنانچہ چند روز کے بعد نبی کریمﷺ کا وصال ہوا اور آپ میرے حُجرے میں دفن کئے گئے، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ اے عائشہؓ ! یہ تمہارے تین چاندوں میں سے بہترین چاند ہے، پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا وصال ہوا، تو انہیں نبی پاکﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا ،یہ دوسرا چاند تھا، پھر حضرت عمر ؓ شہید ہوئے، تو اُن کو بھی نبی پاکﷺ کے دوسرے پہلو میں دفن کیا گیا، یوں یہ تیسرا چاند بھی حضرت عائشہ ؓ کے حُجرے میںپہنچ گیا، جن کا مزاج بھی ایک تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو مزار بھی ایک دے دیا اور انشا اللہ قیامت کے روز گنبد خضرا کے یہ تینوں مکین ایک ساتھ حجرئہ عائشہ ؓ سے اکٹھے اُٹھیں گے ۔ ایک روز اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور مختلف لوگوں کو الگ الگ دروازوں سے پکارا جائے گا، حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا کوئی ایسا خوش نصیب انسان بھی ہو گا جسے جنت کے تمام دروازوں سے بیک وقت پکارا جائے گا؟ نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! وہ خوش نصیب تم ہی ہو، تمہیں تما م دروازوں سے پکارا جائے گا ۔
سن9ہجری میں افواہ پھیلی کہ روم کا بادشاہ پورے عرب پر حملہ کرنا چاہتا ہے، یہ صحابہ ؓ کا نہایت عُسرت اور تنگ حالی کا زمانہ تھا، اللہ کے نبی نے جہادی مہمات اور جنگی تیاریوں کے لئے انفاق فی سبیل اللہ(چندے) کا اعلان فرمایا: تمام صحابہ ؓ نے حسب حیثیت و استطاعت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، حضرت عثمان ؓ بہت دولت مند تھے، اس لئے انہوں نے بہت بھاری مقدار میں مالی خدمت پیش کی،لیکن سیدنا صدیق اکبر ؓ نے تو کمال ہی کر دیا کہ گھر کا سارا اثاثہ ہی لا کر پیش ِ خدمت کر دیا ، آپ نے فرمایا کہ گھر کے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ فرمایا :اُن کے لئے اللہ اور اس کا رسول کافی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ جب ایمان لائے تھے تو اُس وقت اُن کی ملکیت میں40 ہزار درہم نقد موجود تھے انہوں نے وہ ساری کی ساری رقم راہ خدا میں خرچ کر دی ، نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر صدیق ؓ کے مال سے زیادہ کوئی مال میرے لئے مفید نہیں ہوا ، ابوبکر صدیق ؓ سے زیادہ مجھ پر جان ومال کے لحاظ سے کسی کا احسان نہیں ، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اے اللہ ! مَیں دنیا میں سب کے احسانات کا بدلہ دے چکا ہوں، لیکن ابوبکر کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکا، تُو ہی قیامت کے روز اس کا بدلہ دے دینا۔ نبی پاکﷺ تشکر و امتنان کے طور پر حوصلہ افزائی کے یہ جملے جب ارشاد فرماتے ،تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ آبدیدہ ہوکر عرض کرتے،یا رسول اللہ! جان ومال سب ہی آ پ کے لئے ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ خیر کے کاموں میں ہمیشہ آگے آگے ہوتے تھے، صدقات و خیرات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، حضرت عمر ؓ نے بارہا مسابقت کی کوشش کی، لیکن ان کے مقابلے میں کبھی بھی کامیا ب نہ ہو سکے ، تب ایک دن فرمانے لگے ، ابوبکر ! میری پوری زندگی کی ساری نیکیاں آپ لے لیں اور مجھے غار ِ ثور والی صرف ایک رات کی نیکی دے دیں۔ سخاوت وفیاضی کا یہ سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آخر ی لمحہ ¿ حیات تک بھی تسلسل سے جاری رہا ، یہا ں تک کہ وفات سے کچھ دیر قبل بھی فقرا ومساکین کو یاد رکھا اور ان کے لئے اپنے مال سے ایک خمس کی وصیت فرمائی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی پوری زندگی ایک با وفا ، مخلص ، جان نثار ، دیانت دار، امانت دار اور سچے عاشق وسچے دوست کے طور پر ہمیشہ یا درکھی جائے گی، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی پاکﷺ کی اعانت و رفاقت کا حق ادا کر دیا اور دوستوں کے لئے بے لوث سچی دوستی کا نمونہ قائم کر دیا ، لوگ تا قیامت اس سچی دوستی کا حوالہ دیتے رہیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے لبریز ہے۔ انہوں نے نبی پاکﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا دوسال تین ماہ کا بہت ہی قلیل عرصہ پایا ہے ، اس مختصر سی مدت میں بھی عظیم الشان کارنامے انجام دیئے ہیں۔
نبی پاکﷺ کے وصال کے بعد فتنے آندھیوں کی طرح اسلام پر ٹوٹ پڑے تھے ، قریب تھا کہ اسلام کا نام ونشان ہی مٹ جاتا، لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے ساتھ اسلام کو پھر سے دوبارہ زندہ کر دیا، تب ہی تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا تھا کہ”ہم نبی پاکﷺ کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گِھر گئے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ہمارا خلیفہ بنا کر احسان نہ کیا ہوتا، تو ہم ہلاک ہو جاتے، یہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اپنا سب سے بڑا محسن سمجھتی ہے اور اُن کے اَن گنت احسانات سے مسلمانوں کی گردنیں اب تک بھی جھکی پڑی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو پالیسی خطبہ ارشاد فرمایا ،اس کے مندرجات حسب ذیل ہیں.... ”لوگو ! مَیں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں،حالانکہ مَیں تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھا کام کروں توتم میری اعانت کرو اور اگر برائی کی طرف جاﺅں تو تم مجھے سیدھا کر دو، صدق امانت ہے اور کذ ب خیانت ہے انشاءاللہ تمہار کمزور فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہا ں تک کہ مَیں اس کا حق واپس دلادوں اور تمہارا قوی مرد بھی میرے نزدیک ضعیف ہے، یہاں تک کہ مَیں اس سے دوسرے کا حق دِلا دوں۔
جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری عام ہوجاتی ہے، اللہ اس کی مصیبت کو بھی عام کردیتا ہے ، میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو، مگر جب مَیں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ خدا تم پر رحم کرے“۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے تجدیدی کارناموں میں مدعیان نبوت کا قلع قمع کرنا، مرتدین کی سرکوبی کرنا ، منکرین زکوٰة سے جہاد کرنا، قرآن کریم کی جمع وترتیب اور مختلف جہادی مہمات انجام دینا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام کو اپنی اصلی شکل و صورت میں قائم رکھنے کی پوری پوری کوشش کرنا شامل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ 22جمادی الثانی 13ھ کو63سال کی عمر میں دارالفنا سے دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے ، ہر سال 22 جمادی الثانی کو اُمت مسلمہ اپنے اس عظیم محسن کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ان کے نقوش ہائے زندگی سے رہنمائی لیتی ہے اور ان کی تعلیمات سے اگلی نسلوں کو روشناس کرانے کا عزم ظاہر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اس کوشش کو بار آور فرمائے اور ان کو کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے ،آمین !