اقبال ؒ اور عظمتِ انسان کا تذکرہ

اقبال ؒ اور عظمتِ انسان کا تذکرہ
اقبال ؒ اور عظمتِ انسان کا تذکرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دُنیا کی تمام قدیم اور جدید تہذیبوں، تواریخ اور ادب پاروں میں انسان کی نوعیت اور اس کی اہمیت و کارہائے نمایاں کا ذکر پایا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کائنات میں آ کر پہلے اپنی جہالت اور خودی ناشناسی کی وجہ سے مظاہرِ فطرت اور اپنے جیسے انسانوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنے مقام رفیع کو نہ پہچان سکا۔ ہبوطِ آدم کے بعد خدا تعالیٰ انسانوں کی رُشد و ہدایت اور فوز و فلاح کے لئے ہر دور میں اپنے برگزیدہ پیغمبر بھیجتا رہا، جو گمراہ انسانوں کو راہ راست کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا انسان شعورِ ذات کی منزلوں کو طے کرتا ہوا اپنی عظمت سے آگاہ ہوتا رہا۔ اس عرفانِ ذات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے قدرت کی مختلف طاقتوں کو مسخر کرنا شروع کر دیا اور یوں اس کی علمی ترقیوں اور حیرت انگیز ایجادات و اختراعات کا دروازہ کھل گیا۔ کائنات کا وہ کون سا گوشہ ہے، جس میں انسان نے اپنی عظمتِ فکرو عمل کے نقوش مرتسم نہیں کئے؟ گزشتہ صدی سے اس نے اپنی فکر رسا، خداداد صلاحیتوں، جفا کشی، محنتِ مسلسل اور تحقیق پسندی کی بدولت جو حیران کن علمی اور سائنسی کارنامے سرانجام دیئے ہیں وہ اب سب پر عیاں ہو چکے ہیں۔ اب بھی وہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں منہمک ہو کر قدرت کے مزید پوشیدہ اسرار کو منکشف کر رہا ہے۔خدا کرے کہ وہ تعمیر کائنات اور فلاحِ انسانیت کو ہمیشہ مدنظر رکھے اور امنِ عالم کے قیام کے مقصد کو نظر انداز نہ کرے۔
علامہ اقبال ؒ نے جہاں انسان کی جہالت، وحشت و درندگی، خودی ناشناسی اور تخریبی اندازِ فکر کا ذکر کیا ہے وہاں اس نے انسانی عظمت کے پہلو کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ان کی متوازن فکر ہمیشہ اشیاء اور نظریات کے اچھے اور بُرے پہلوؤں سے آگاہ رہتی ہے۔ وہ اچھائی کی مدح سرائی کرتے ہیں اور بُرائی کو ہدفِ تنقید بنانے سے باز نہیں رہ سکتے۔انسان کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ ہے۔اس مختصر مضمون میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ انہوں نے عظمتِ انسان کے کن نمایاں ترین گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ عظمتِ انسانی سے متعلق ان کے نظریات کافی حد تک قرآنی تصورِ انسان پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری اور نثر میں قرآنی حوالہ جات کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے اپنی مشہور و معروف نثری تصنیف
[the Reconstruction of Religions thought in Islam]
کے متعدد مقامات پر اس موضوع پر اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب ان کے سات خطبات پر مشتمل ہے۔ وہ اس کے خطب�ۂ اول میں سورۂ الاحزاب کی ایک آیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اپنے تمام نقائص و معائب کے باوجود انسان دیگر مخلوقات سے افضل و اعلیٰ ہے، کیونکہ وہ اُس امانت الٰہی کا حامل ہے جسے قرآن کے الفاظ میں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے بھی اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘‘۔ یہ چیز انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کرتی ہے۔ انسان کی عظمت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اسے ’’امانت الٰہی‘‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس امانت الٰہی کی حقیقی نوعت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ کی نگاہ میں ’’امانت الٰہی‘‘ سے مراد خودی کی تربیت اور اس کا استحکام ہے۔ تمام کائنات میں سے صرف انسان کو عقل و شعور اور آزادئ انتخاب کی نعمت دی گئی۔ جمادات، نباتات اور حیوانات میں عقلی سرگرمی، شعوری کوشش اور خیرو شر کو اختیار کرنے کی صلاحیت اور آزادئ انتخاب کی صفات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہستی کے ادنیٰ مدارج میں ہیں۔ علم، فکر، شعوری عمل اور آزادی کو بروئے کار لا کر انسان نہ صرف مادی ترقی کے مراحل طے کر سکتا ہے، بلکہ وہ روحانی بلندیوں کو بھی حاصل کر کے خلیفۃ اللہ علی الارض بن سکتا ہے۔ اگر انسان غورو فکر اور علم سے کام نہ لے تو وہ کبھی بھی مظاہر فطرت کے گہرے مطالعہ و مشاہدہ کی بدولت قدرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اس علمی صلاحیت کی بنا پر وہ خدا تعالیٰ کی نشانیوں کو خارجی دُنیا میں تلاش کرتا ہے اور اپنے علمی نتائج کی بنیاد پر سائنس کے میدان میں حیرت انگیز ترقی بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے حقیقتِ مطلقہ کی حکمتِ بالغہ، خلاقی صفات، ربوبیتِ عامہ اور ہمہ گیر کرم گستریوں کا اسے انکشاف ہوتا ہے۔ کیا یہ قرآنی حقیقت نہیں کہ علم کی بدولت ہی آدم کو فرشتوں پر برتری دی گئی تھی؟ علامہ اقبالؒ کا یہ تصور بھی کس قدر درست دکھائی دیتا ہے کہ ’’نیکی کے لئے آزادی شرط ہے‘‘۔اگر خدا تعالیٰ نے انسان کو خیرو شر کی تمیز کی صلاحیت اور آزادئ انتخاب سے نہ نوازا ہوتا تو اس میں اور مشین میں پھرکیا فرق ہوتا؟ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ مشین اپنی مرضی اور آزادی سے حرکت نہیں کرتی،بلکہ اس کی حرکت کسی اور کی محتاج ہوتی ہے۔ اگر انسان کی حرکات و سکنات بھی مشین کی طرح بلاارادہ ہوتیں تو وہ اپنے اچھے اور بُرے اعمال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ باز پُرس تو اُسی سے کی جا سکتی ہے جسے کوئی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہو اور نیکی اور بدی کے انتخاب کی آزادی بھی دی گئی ہو۔انسانی عظمت کا یہ پہلو بھی علامہ اقبال ؒ کے کلام میں جا بجا بیان کیا گیا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق،زمین پر اس کا نائب اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔انسانی عظمت کے ان مختلف گوشوں کو علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں بھی موضوعِ سخن بنایا ہے۔چند اشعار ہدیۂ قارئین کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی ایک نظم ’’انسان‘‘ میں انسان کی کرم�ئ عمل، ترقی پذیری،انقلاب آفرینی، دانائی، علم اور توانائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دُنیا میں
انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
اس ذرہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرہ نہیں شائد سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہست�ئ دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے

وہ اپنی ایک اور نظم ’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ’’ میں انسانی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرک�ۂ بیم و رجا دیکھ
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
زمین پر اپنے اس نائب کو بھیجنے سے قبل ہی خدا تعالیٰ نے اشیائے کائنات کو پیدا کر دیا تھا تاکہ وہ اس محفل جہاں کی زیب وزنیت کا باعث بنے اور زمین پر اس کا مطیع بندہ بن کر زندگی گزارے اور یہاں امن و امان کی فضا پیدا کر سکے۔اشیائے کائنات کا علم حاصل کرنے کی استعداد دے کر اسے بھیجا تاکہ وہ فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اس کی رضا اور تعلیمات کے مطابق انہیں استعمال کرے۔ علامہ اقبال ؒ انسان کی اس نیابت الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
''man is endowed with the faculty of naming things۔۔۔ thus the character of man,s knowledge is conceptual and it is with the weapon of this conceptual knowledge the man approaches the observable aspect of Reality''
کائنات کے حسن و جمال میں اضافہ کرنے اور اسے ترقی و ارتقاء کے مراحل سے گزارنے میں انسان نے محض اپنے علم پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ اپنی سع�ئ مسلسل، عمل پیہم، محنت شاقہ اور جفا کشی کو بھی اختیار کیا ہے، قدرت نے سفال کو پیدا کیا،مگر انسان نے اپنی محنت و ذہانت سے کام لے کر اسے جام کی شکل دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے اس ریگستانِ کائنات کو گُل و گلزار بنانے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس طرح انسان نے اپنی تخلیقی سرگرمیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ دُنیا کی ہما ہمی اور ترقی میں اس کا بھی کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’احسن الخالقین‘‘ کہا ہے۔ نائب حق ہونے کے لحاظ سے انسان بھی چھوٹے پیمانے پر تخلیق کار ہے۔ اگر وہ محض کٹھ پتلی بنا کر بھیجا جاتا تو پھر وہ کیسے تخلیقی سرگرمیوں کا حامل ہو سکتا تھا؟ شاعر مشرق ؒ انسان کی عظمت کے اس گوشے کو بیان کرتے ہیں۔ انسان خدا سے اس طرح گویا ہوتا ہے:
قصور وار، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دُعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ، وہ تیرا جہانِ بے بنیاد
علامہ اقبال ؒ ان مفکرین میں سے ہیں، جنہوں نے انسانی عظمت اور انسانی صفات کے گیت گائے ہیں،خدا تعالیٰ نے انسان کو بہت سی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جن کی بدولت وہ تسخیرِ کائنات کے قابل ہو سکا ہے۔ اسے یہ بلند مقام یونہی نہیں مل جاتا، بلکہ اسے اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور موانعات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ جذب�ۂ ترقی اورذوق انقلاب سے عاری ہو جائے تو وہ بلاشبہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔ یہ جذبۂ ترقی ہی ہے، جس نے اسے جفا کش، بلند ہمت، انقلاب آفرین اور ارتقا پذیری کی صفات سے آشنا کر کے دُنیا کی رعنائی اور ترقی کے قابل بنا دیا ہے۔اگر غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ دُنیا کی تمام ہما ہمی اور نئی نئی ایجادات اسی جذب�ۂ انقلاب کی مرہون منت ہیں۔ شاعر مشرق ؒ انقلاب کے ذوق کی اہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکش انقلاب
ذہنی صلاحیتوں کے مناسب استعمال، جفا کشی، خواہش ترقی، مقاصد آفرینی اور انقلاب پسندی کے سبب انسان حیوانی سطح کی زندگی سے بلند ہو کر بقائے دوام اور شہرتِ عام کا مستحق بن جاتا ہے۔ اپنے خطبات میں علامہ اقبال ؒ نے بجا فرمایا ہے ’’ اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘۔۔۔۔اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے خداداد علم، مخفی صلاحیتوں اور طاقت کو نبی نوع انسان کی فلاح، تعمیر جہاں اور نیکی کی خاطر استعمال کرتا ہے یا ابلیسی اور تخریبی مقاصد کے لئے خالق کائنات نے اسے اپنی الہامی تعلیمات اور انبیائے کرام کی وساطت سے صراطِ مستقیم کا پتہ بتا دیا ہے اور ساتھ ہی اسے غلط روش کے تباہ کن نتائج سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔اچھے اور بُرے انتخاب عمل کے مطابق ہی اسے سزا و جزا کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ دراصل اس کے اپنے اعمال ہی اسے جنت اور جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ بقول اقبال ؒ :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
پہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

مزید :

کالم -