فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 68

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 68
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 68

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رشید جاوید ہمیں لے کر رائل پارک پہنچ گئے۔ یہاں ایک فلیٹ میں راشن کا دفتر تھا۔
ہم نے پوچھا ’’ کیا بیویوں کا بھی راشن ہو گیا ہے ؟‘‘
بولے ’’ خاموش رہو۔ اوپر چلو۔‘‘
ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے فلیٹ پر پہنچ گئے۔ جاوید نے دروازے پر دستک دی۔ ایک زنانہ آواز نے کہا۔’’ کون ہے‘ آ جاؤ۔‘‘
ہم جاوید کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک صاف ستھرا سادگی سے سجا ہوا فلیٹ تھا۔ سامنے والے کمرے میں چند صوفے اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک صوفے پر شاہانہ کی بہن بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم لوگوں کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں۔

قسط نمبر 67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ آج کیسے راستہ بھول پڑے اور انہیں بھی ساتھ لے آئے۔ زہے قسمت۔‘‘
علیک سلیک کے بعد ہم لوگ بیٹھ گئے۔ اندر سے شاہانہ بھی نکل آئیں۔ سادہ سے لباس میں سادگی کانمونہ بنی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیااورایک چھوٹے لڑکے سے چائے لانے کو کہا۔ جاوید صاحب نے ہمیں بتایا کہ ابھی شام نہیں ہوئی ہے۔ ورنہ یہاں سارے صحافی‘ دانشور‘ شاعر اورادیب اکٹھے ہوتے ہیں اور خوب بحث مباحثے ہوتے ہیں۔
’’ واقعی آپ بے وقت آگئے۔‘‘ شاہانہ نے شوخی سے کہا۔
جاوید صاحب نے کہا ’’ شاہانہ‘ تم چپ بیٹھ جاؤ۔ بڑوں کی بات میں چھوٹے نہیں دخل دیتے۔‘‘ پھر وہ شاہانہ کی بہن سے مخاطب ہوئے۔ ’’ آفاقی کو آپ جانتی ہیں ؟‘‘
’’ خوب اچھی طرح۔‘‘
’’ کیسا لڑکاہے ؟‘‘
’’ سنا ہے بہت شریف آدمی ہیں۔‘‘
رشید جاوید بولے ’’ بہت شریف‘ خاندانی‘ پڑھا لکھا لڑکا ہے۔ بر سر روز گار بھی ہے‘ اخبار میں کام کرتا ہے۔‘‘
’’ ماشااﷲ‘ ماشااﷲ !‘‘ شاہانہ کی بہن نے پان منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’ تو پھر کیا خیال ہے ؟‘‘
’’ کس کے بارے میں ؟‘‘
’’ ارے بھئی شادی کے بارے میں۔ تم سے نہیں شاہانہ سے۔‘‘
ہم پریشان ہو گئے۔ ’’ یار یہ کیا بد تمیزی ہے ؟‘‘
’’ بد تمیزی کی کیا بات ہے۔ تمہاری تیسری خواہش پوری کر رہا ہوں۔ یہ بھی اچھی لڑکی ہے۔ فلموں میں ترقی کرے گی۔ تم کہانیاں لکھا کرنا‘ ہدایت کاری کرنا‘ یہ کام کیا کرے گی۔‘‘
ہمیں بہت غصہ آیا۔’’ یہ کیا مذاق ہے ؟‘‘
شاہانہ اور اس کی بہن بھی حیران تھیں۔ جاوید صاحب نے کہا ’’ یہ میرا بہت پیارا دوست ہے۔ صبح سے اداس اور پریشان ہے۔ میں اس کی تین خواہشیں پوری کرنا چاہتا ہوں۔ سوچتا ہوں پہلے شادی ہو جائے‘ پھر دوسرے کام بھی ہو جائیں گے۔ بیوی تو اپنی قسمت ساتھ لے کر آتی ہے۔‘‘
شاہانہ نے کہا۔ ’’ اور بد قسمتی بھی ‘‘
سب ہنسنے لگے۔ اتنی دیر میں چائے آ گئی اور گپ شپ شروع ہو گئی۔ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی آنے لگے۔
جاوید صاحب نے کہا ’’ دیکھو ابھی زیادہ لوگ نہیں آئے ہیں۔ جلدی سے ہاں یا نہ کر دو تا کہ یہ بات تو ختم ہو۔‘‘
شاہانہ بولیں۔’’ جاوید صاحب‘ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ کم از کم میں اپنی نئی زندگی شیطانی کام سے شروع نہیں کروں گی۔‘‘
جاوید صاحب نے ہمیں دیکھا اور کہا۔’’ دیکھو۔ اب مجھ سے شکایت نہ کرنا۔ میں نے تو سارا بندوبست کر دیا تھا۔ ‘‘
اگلے روز ہم نے قمر زیدی کو بتایا کہ شاہانہ کی شادی کی بات چیت چل رہی ہے۔
’’چھوڑو‘ مذاق مت کرو۔‘‘
’’ ایمان سے‘ میرے سامنے بات ہوئی تھی۔‘‘
’’ کھاؤ قسم !‘‘
ہم نے قسم کھالی۔
’’ کس سے ؟کون ہے وہ کمینہ۔ میں اس کا خون پی جاؤں گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’ بلاوجہ ڈریکو لا بننے کی کوشش مت کرو۔ خون پینا ہے تو اپنی محبوبہ کا پیو۔‘‘وہ اسی وقت رخصت ہو گئے۔
دوسرے دن ملے تو خاصے پریشان تھے۔’’ کچھ پتا نہیں چلتا۔ ویسے بات تو ہوئی ہے۔ میں نے اسے بھی قسم دے کر پوچھا تھا۔‘‘
اس طرح قمر زیدی بے چارے کئی دن پریشان رہے۔ شاہانہ کو قمر زیدی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کم از کم رومان کی حد تک۔ ان کی لطیفہ بازی اور نقلیں اتارنا اسے پسند تھیں،اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر بعد میں شاہانہ سے ہماری کافی دوستی ہو گئی۔ وہ بہت ذہین‘ سمجھ دار اور حساس لڑکی تھی۔ اسی لیے فلموں میں کامیاب نہ ہو سکی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خود بھی اداکارہ بننے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ اس کی کہانی خاصی دل گداز تھی۔ وہ ایک شریف اور اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ جسے وہ اپنی بہن بتاتی تھی وہ دراصل اس کی بہن نہیں تھی‘ سہیلی اور ہمدرد تھی۔ بعض وجوہات کی بنا پر شاہانہ کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور اس نے اپنی سہیلی کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ جسے وہ ’’ باجی ‘‘ کہا کرتی تھی۔ اپنے گھر اور خاندان سے اس نے ہمیشہ کے لیے رابطہ توڑ لیا۔ فلمی دنیا میں بھی وہ زیادہ عرصے نہ رہی۔جب ہم نے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا اور فلم ساز بنے تو شاہانہ لاہور کی فلمی دنیا سے رخصت ہو چکی تھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں چلی گئی‘ مگر اس کے ساتھ گزرے ہوئے دن اور دلچسپ محفلوں کا تذکرہ کافی عرصے تک ہوتا رہا۔
چند سال ہوئے ہم اسلام آباد گئے اور وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اسی شام ایک فون موصول ہوا۔
’’ہیلو۔‘‘
’’آپ آفاقی صاحب بول رہے ہیں ؟‘‘ ایک سریلی سی آواز نے پوچھا۔
’’جی ؟‘‘
’’مجھے پہچانا؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’بڑے افسوس کی بات ہے۔ کوئی دوستوں کو یوں بھولتا ہے۔‘‘
دماغ پر بہت زور ڈالا مگر یاد نہ آیا۔‘‘آپ خود ہی بتادیجئے۔‘‘
’’میں شاہانہ بول رہی ہوں۔‘‘
’’ارے شاہانہ۔ کہاں سے بول رہی ہو؟ میری خبر کہاں سے لگی ؟‘‘
’’بس مل گئی۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ ایک د م فون بند ہو گیا۔
ہم بہت حیران ہوئے۔ شاہانہ کو ہمارے بارے میں کس نے بتایا اور اس نے اچانک فون کیوں بند کر دیا؟
کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ہم نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ سامنے شاہانہ کھڑی تھی۔ اب لڑکپن کی جگہ پختگی نے لے لی تھی۔ ہم نے جس لڑکی کو دیکھا تھا اب وہ عورت بن چکی تھی۔ ہم حیران دیکھتے رہ گئے۔
’’اندر آنے کو نہیں کہیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ آؤ۔ مگر تم اتنی جلدی ؟‘‘
وہ ہنسنے لگی۔ وہی کھلکھلاتی ہوئی آواز۔ مسکراتی ہوئی چمکدار آنکھیں۔ ’’گھبرائیں نہیں‘ میں اسی ہوٹل میں کام کرتی ہوں۔ آپ کے بارے میں مجھے۔۔۔۔۔۔ ریسپشن سے خبر ملی تھی۔‘‘
ہم دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے مگر درمیان میں ایک طویل زمانہ حائل تھا۔(جاری ہے)

قسط نمبر 69 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)