عمران خان کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا

عمران خان کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا
عمران خان کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ ماہ ہونے والے سینٹ کے انتخاب میں ووٹ بیچنے والے خیبر پختونخوا اسمبلی کے 20 ارکان کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ قومی سیاست میں یہ ارتعاش پیدا کر دینے والا جرأت مندانہ اور غیر معمولی فیصلہ ہے۔

تحریک انصاف کے ان 20 ارکانِ صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے باہر نکال دیا جاتا ہے تو صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت ختم ہو سکتی ہے، لیکن اتنا بڑا نقصان قبول کر لینے کا خطرہ مول لے کر بھی عمران خان نے یہ فیصلہ کر دیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے لئے قیامت بھی ٹوٹ پڑے لیکن ان کو سیاست کے شعبہ میں کرپشن، بدعنوانی اور ہارس ٹریڈنگ کسی بھی طرح منظور نہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ واحد مثال ہو کہ ہارس ٹریڈنگ کے جرم میں کسی سیاسی جماعت نے اپنے ہی ارکان اسمبلی کے خلاف اتنی بڑی کارروائی کی ہو اور اس بات کی پروا نہیں کی گئی کہ اس اقدام کے بعد ان کی واحد صوبائی حکومت کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔

ہمارے ملک کی قسمت بھی اسی صورت میں تبدیل ہو سکتی ہے جب قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی سیاسی مفادات کی قربانی دینے کا ہم خود میں حوصلہ پیدا کریں گے۔

اور یہ روایت جتنی بھی پختہ ہو گی یعنی قومی اور ملکی مفادات پر اپنے جماعتی اور سیاسی مفادات قربان کر دیئے جائیں تو اسی میں ہمارے ملک کی بھلائی ہے۔

ہارس ٹریڈنگ اور مالی مفادات کی خاطر ضمیر فروشی یا خود فروشی کا عمل روکنے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر اپنا سفر تیزی سے شروع نہ کر دے۔

ہم اکثر یہ بات کرتے ہیں کہ اگر ملک میں جمہوری ادارے مستحکم اور فعال ہوں گے تو اس سے ہمارے ملک و قوم کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔

یہ بات ہے بھی درست۔ مگر جمہوری ادارے بھی اسی وقت مضبوط ہوں گے جب سیاست کے عمل میں کرپشن اور بدعنوانی نہیں ہو گی اور جب ہارس ٹریڈنگ کا مکروہ دھندا نہیں ہوگا۔ عمران خان نے جس روایت کی بنیاد رکھی ہے۔

اس کی تقلید دوسری جماعتوں کو بھی کرنی چاہئے۔ سیاست میں اختلاف رائے ایک فطری بات ہے،لیکن اگر کوئی سیاست دان عمران خان کی طرح اچھا عمل کرتا ہے تو اس کی تعریف سیاسی مخالفین کو بھی کرنی چاہئے۔ اور کرپشن کے اس ناسور کے خلاف سیاست دانوں کو متحد ہو جانا چاہئے جس نے ہمارے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔


ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کو اُسی صورت میں ختم یا کم کیا جا سکتا ہے جب سیاست اور سیاست دانوں میں موجود کرپشن ختم ہو گی اور ملک میں کرپشن کے طاقتور ترین دیو کو صرف ایک ہی صورت میں پابہ زنجیر کر کے بے بس کیا جا سکتا ہے جب تمام سیاسی جماعتیں خلوصِ نیت کے ساتھ ساتھ اس عمل خیر میں اپنا اپنا کردار مثبت طور پر ادا کریں گی۔ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کرپشن کو ایک بہت بڑی لعنت قرار دیا تھا۔ کرپشن کو قائد اعظم نے خود غرضی اور اخلاقی و ذہنی پستی کا بھی نام دیا تھا۔

قائداعظم اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں دونوں ہی کردار و اخلاق کے اعتبار سے کمال کے سیاست دان تھے۔ لیکن ان کے بعد کرپشن نے پاکستان میں ایک لاعلاج مرض کی صورت اختیار کرلی۔

جب حکمران طبقے ہی کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہو جائیں تو پھر سرکاری افسروں اور معاشرے کے دوسرے طبقوں کو کرپشن سے کون روک سکتا ہے۔

جب قومیں دیانت اور کردار کی پختگی کے اوصاف سے محروم ہو جاتی ہیں تو پھر ملک کی تباہی اور بد حالی اس کا قدرتی نتیجہ ہیں۔ آج اگر ہم بد حال ہیں اور معاشی طور پر ہم مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں قومی ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور بد عنوانی ہے۔

اگر ہم اپنے ملک میں ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں اور کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر زندگی بخش ادویات تک میں ملاوٹ کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے تو اس کی وجہ بھی سرکاری اداروں کا بد عنوان ہونا ہے۔

اس مایوس کن صورتحال میں ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کے دھندے کے خلاف عمران خان کا ایکشن لینا ایک حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے لیکن یہ سارا عمل ثمر آور اس وقت ہو گا جب سینٹ کے ان ارکان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جنہوں نے صوبائی اسمبلی کے ایک ایک رکن کو خریدنے کے لئے اپنا کروڑوں روپے کا کالا دھن استعمال کیا۔ ضمیر بیچنے والے ارکان اسمبلی اگر مجرم ہیں تو ضمیر خریدنے والے سینٹ کے ارکان بھی تو مجرم ہیں۔


اگر سینٹ کا کوئی رکن ایمانداری، حق و انصاف اور قانون کے مطابق بد عنوانیوں سے پاک الیکشن میں منتخب نہیں ہوتا تو اس کے خلاف بد عنوانی کے الزامات ثابت ہو جانے کے بعد وہ سینٹ کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ تحریک انصاف کے ارکانِ صوبائی اسمبلی ہوں یا دوسری سیاسی جماعتوں کے ارکانِ صوبائی اسمبلی۔ جن بھی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے اپنے ووٹ اپنے ضمیروں کا سودا کر کے بیچے ہیں۔

ان بیچے گئے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سینٹ کے ارکان کا انتخاب آئین، قانون اور سیاسی اخلاقیات سے متصادم ہے۔ سینٹ کے ایسے ارکان جب تک ایوان بالا میں موجود ہیں وہ جمہوری نظام کے دامن پر بد نما داغ ہیں۔ عمران خان نے ابھی چند ووٹ فروش یا ضمیر فروش ارکان صوبائی اسمبلی کو بے نقاب کیا ہے۔

ابھی اور بہت زیادہ ووٹ فروشوں کو بے نقاب ہونا ہے اور ان کے بعد سینٹ کے ان ارکان کے چہروں سے بھی نقاب اتارا جانا ہے جنہوں نے ووٹ خرید کر خود کو منتخب کروایا ہے۔ اپنے حلقۂ انتخاب کے عوام کے اعتماد کا خون کرنا اور کروڑوں روپے لے کر اپنا ووٹ بیچ دینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔

یہ کام کوئی خچر ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ ’’خچروں‘‘ کے منتخب کئے ہوئے سینٹ کے ارکان کے چہروں کو بھی جلد بے نقاب ہونا چاہئے۔ مرتضیٰ برلاس کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔


کتاب سادہ رہے گی کب تک کہیں تو آغازِ باب ہوگا
جِنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہوگا


جو شخص منتخب ہونے کے لئے بے ایمانی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس سے ملک و قوم کی بھلائی کا کوئی کام کرنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ سینٹ کا معاملہ تو اور بھی زیادہ حساس ہے۔

سینٹ کے ارکان کو اسمبلی کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔ اگر اسمبلی کے ارکان اپنے ضمیر فروخت کر کے ووٹ دیتے ہیں تو وہ ایماندار اور امین نہیں رہتے۔

اور سینٹ کے جو ارکان ضمیر خرید کر منتخب ہوتے ہیں انہوں نے تو آغاز ہی بے ایمانی اور خیانت سے کیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے تو یہ الزام بار بار عائد کیا گیا ہے کہ چیئرمین سینٹ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے وہ بھی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے سینٹ کے چیئرمین کے جلیل القدر منصب تک پہنچے ہیں۔

چیئرمین سینٹ کا عہدہ بہت ہی قابل احترام ہے لیکن یہ عہدہ اگر ضمیروں کی خرید و فروخت کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو تو پھر اس منصب کی ساری وقعت اور قدر ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

عہدوں کا اعتبار اور وقار اصولوں کی پاسداری سے ہوتا ہے۔ جو عہدے اصول بیچ کر اور ضمیر خرید کر حاصل کےء جاتے ہیں وہ عہدہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کا وقار باقی نہیں رہتا۔

سینٹ کے گزشتہ ماہ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے سب سے زیادہ الزامات پیپلزپارٹی کے خلاف عائد کئے گئے۔ اس کے شواہد اور ثبوت بھی ہیں۔ اب یہاں ایک بات مجھے ضرور کہنی ہے کہ عمران خان کو بہت سارے رازوں اور حقائق کا علم تھا۔

اس کے باوجود سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کو منتخب کرنے کے لئے تحریک انصاف نے اپنے ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حق میں استعمال کئے ہیں۔

جب سینٹ میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے سب سے زیادہ الزامات ہی پیپلزپارٹی کے خلاف ہیں تو پھر بہت سارے حقائق کا علم ہونے کے بعد بھی اگر عمران خان کے حکم پر تحریک انصاف کے ممبرانِ سینٹ اپنے ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو دیتے ہیں تو یہ عمل گویا ہارس ٹریڈنگ کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے اغوا کے مجرم کو تو معاف کر دیا لیکن غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب اس شخص نے اپنی دوسری بیٹی کی شادی اسی مجرم کے ساتھ کر دی جس نے اس کی قتل ہونے والی بیٹی کو اغوا کیا تھا۔

عمران خان کا اپنے ایسے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کرنا بہت صائب فیصلہ ہے جنہوں نے سینٹ کے الیکشن میں اپنے ووٹ اور ضمیر فروخت کئے مگر ہارس ٹریڈنگ کرنے والے تو ووٹ فروخت کرنے والوں سے بھی بڑے مجرم تھے۔ ضمیر بیچنے والوں کو عمران خان نے معاف نہیں کیا۔یہ فیصلہ تاریخی ہے۔

لیکن ضمیر خریدنے والوں کو عمران خان نے کیوں معاف کر دیا۔ ووٹ خریدنے والوں کو عمران خان نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکانِ سینٹ کے ووٹ کس خوشی میں دیئے۔

ووٹ فروشی اور ووٹ خریدنا اگر برابر کا جرم بھی سمجھ لیا جائے تو عمران خاں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ضمیر خریدنے والوں کی حمایت کر کے عمران خان نے ایک بری مثال قائم کیوں کی ہے۔ ووٹ فروشوں کے ساتھ عمران خان کا سلوک مختلف ہے اور ضمیر خریدنے والوں کی عمران خاں نے اپنے ووٹ دے کر حمایت کر دی ہے۔

سیاست کے کھیل میں اب عمران خاں نو وارد نہیں ہیں۔ اس لئے عمران خان کو اپنے تعجب انگیز اور متضاد طرز عمل پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ عمران خان کی جماعت نے سینٹ کے چیئرمین کے لئے صادق سنجرانی کو ووٹ دیئے ہیں۔

صادق سنجرانی پر بھی ووٹوں کی خرید و فروخت کے سنگین الزامات ہیں اور یہ الزامات وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے تواتر اور تسلسل کے ساتھ عائد کئے جا رہے ہیں۔

کیا عمران خاں کی جماعت نے صادق سنجرانی کو چیئرمین منتخب کرنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیا تھا کہ صادق سنجرانی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی سینٹ کے الیکشن کے لئے خرید و فروخت میں ملوث نہیں تھے۔ ووٹ فروشی اور ضمیروں کو خریدنے والوں کے لئے عمران خان کا الگ الگ طرز عمل نہیں ہونا چاہئے تھا۔

مزید :

رائے -کالم -