مودی اور واجپائی میں فرق پہچانیں

مودی اور واجپائی میں فرق پہچانیں
مودی اور واجپائی میں فرق پہچانیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم عمران خان بھارت کے ساتھ پرامن مستقبل کے لئے مثبت اور پر امید سہی مگر وہ بھول رہے ہیں کہ ان کا واسطہ ایسے تنگ نظر حکمران سے ہے جس کا ماضی ہندو انتہا پسندی، پاکستان، اسلام اور مسلمان دشمنی سے داغدار ہے ۔ مودی سے سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کی طرح علاقائی امن اور ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان سے بہتر تعلقات کی توقع کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ واجپائی انسانیت اور بھائی چارے کا درس دینے والے ادیب و شاعر تھے جبکہ مودی نفاق کے بیج بونے والا تنگ نظر اور شدت پسند حکمران ہے۔ عمران خان نے مودی اور واجپائی کے مابین اس بنیادی فرق کو نہ سمجھ کر ایک بار پھر مردم ناشناسی کا ثبوت دیا ہے؟
مکتی باہنی کی صفوں میں شامل ہو کر مشرقی پاکستان میں پاک افواج اور متحدہ پاکستان کے حامی عوام کے خلاف مسلح بغاوت میں بنفس نفیس شامل ہونے والے شخص سے امن کی توقع محض خام خیالی ہے۔ مودی وہی شخص ہے جس نے گجرات میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر فوج اور پولیس کی زیر نگرانی نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کروایا۔ یہ شخص اس بیہمانہ اقدام پر کبھی نادم تک نہیں ہوا بلکہ اپنی مسلم دشمنی کو ہندو انتہا پسند گروہوں میں مقبول عام ہونے اور پھر ان کی حمایت سے ایڈوانی کا راستہ صاف کر کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔


گائے کی حفاظت کے نام پر ہندوستان میں مسلمانوں پر زمین تنگ کرنا ہو،کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و وحشت کا بازار گرم کرنا ہو بنگال میں کئی نسلوں سے آباد مسلمانوں کو بے وطن کرنا ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگا کر درجنوں مسلمانوں کو زندہ جلانے والے درندوں کی رہائی ہو ایسے ہر موقع پر مودی نے خاموش رہ کر اسلام اور مسلمان مخالف اقدامات کی تائید کی ہے۔
فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری میں مبینہ گھپلوں کی عدالتی تحقیقات، فاقوں پر مجبور بدحال کسانوں کی خودکشیاں، دانشوروں، ادیبوں، لکھاریوں، فنکاروں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کا مودی کی شدت پسندانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج، ظلم و حشت کے باوجود کشمیر میں مضبوط تر ہوتی ہوئی تحریک آزادی، ریاستی انتخابات میں شکست فاش اور بلند بانگ انتخابی نعروں پر عملدرآمد میں ناکامی سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے مودی نے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور پنجہ آزمائی کا پر خطر راستہ چنا ہے۔


مودی الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس قماش کے لوگ کبھی مذہب، کبھی قومیت کبھی زبان، کبھی ادارہ جاتی اور کبھی علاقائی تعصب کا زہر لوگوں کے دلوں اور دماغ میں گھولتے ہیں۔ لوگوں کو گروہوں میں بانٹ کر ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ گروہ بندی، تقسیم اور تعصب خواہ وقتی طور پر چند افراد کے ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن بھی جائے مگر معاشرے کے ہر طبقے کے اجتماعی مفادات کیلئے زہر قاتل ہے۔ عجیب بات ہے کہ تقسیم اور تعصب اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود مقبول عام ہے۔
اگر مودی الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ اپنے انتخابی وعدوں اور بھارتی جنتا پارٹی کے منشور کے مطابق کشمیر کی خصوصی تشخص کی ضامن بھارتی آئین کی دفعہ 35A۔370 کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوں لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کر کے سیز فائر اور UNO کی قراردادوں کو بے معنی کرنے کی کوشش خطے کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل کر پہلے سے دگرگوں صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -