کیا ہم اندھے، بہرے، گونگے ہیں!

کیا ہم اندھے، بہرے، گونگے ہیں!
کیا ہم اندھے، بہرے، گونگے ہیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

Richard Mc. Kinneyکا تعلق امریکہ سے ہے وہ امریکہ کی ریاست Indiana کے شہر Muncie میں 12اکتوبر 1953ء کو پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی وہ رمبو کی فلمیں دیکھنے کا شوقین تھا، جس کی وجہ سے اِس نے پوری زندگی خود کو سخت جان اور طاقتور بنانے میں گزار دی۔ وہ اپنے ملک سے شدید محبت کر تا تھا اور ایک بہت اعلیٰ قسم کا تیر انداز بھی تھا۔ اس نے اولمپکس گیمز میں چار بار حصّہ لیا اور دو دفعہ سلور میڈل جیتا۔ پھر اس نے امریکن فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور ایک مضبوط جسم کا مالک ہونے اورپیشہ ورانہ عسکری مہارت کی وجہ سے سارجنٹ کے عہدے تک جاپہنچا۔ اس نے جنگوں میں حصّہ لیا، بوسنیا، صو مالیہ اور فلپائن میں جنگیں لڑیں۔ان سب خوبیوں کے باوجود رچرڈ مسلمانوں اور اسلام سے شدید نفرت کرتا تھا،چنانچہ جب بھی وہ کسی مسلمان کو دیکھتا تو اس کا دل کرتا کہ وہ اِس کی گردن اُڑادے۔ ایک دفعہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی سٹور میں سامان خرید رہا تھا کہ وہاں پر دو مسلمان عورتیں آگئیں۔ اُس نے اُن عورتوں کو دیکھتے ہی اُن کی گردن اُڑانے کاارادہ کرلیا،مگر بیوی کی موجودگی کی بنا پر بڑی مشکل سے اپنے غصے کو قابو میں کر لیا۔ رچرڈ ایک بیٹی کا باپ تھا،جس سے وہ انتہائی محبت کر تا تھا وہ ہمیشہ اپنی بیٹی سے مسلمانوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتا۔


جب رچرڈ صو مالیہ اور فلپائن کی جنگ میں حصہ لے کر واپس آیا تو اس نے شہر کی مشہور مسجد کو خود ساختہ بم سے اُڑانے کا ارادہ کیا جس میں ہر نماز کے وقت تقریباََ 200 افراد موجود ہوتے تھے۔ اِس کی شدید خواہش تھی کہ وہ مسجد کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر مسلمانوں کے جسم کے لوتھڑے ہوا میں اُڑتے ہوئے دیکھے۔ اُس نے سارا منصوبہ اپنی بیٹی سے بیان کیا تو اُس کی بیٹی نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے پہلے ضرورجان لینا چاہیے۔ اُسے بیٹی کی بات بہت اچھی لگی اور وہ مسجد کے اندر چلاگیا جس کو وہ بم سے اُڑانے والا تھا۔ جب رچرڈ مسجد کے اندر داخل ہوا تو ایک نمازی نے اس کو خوش آمدید کہا اور پوچھا کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ جواب میں رچرڈ نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔

اُس شخص نے قرآن مجید کا انگلش ترجمہ اُس کے ہاتھ میں تھمادیا اور کہا کہ جس بات کی سمجھ نہ آئے آپ وہ ہم سے پوچھ سکتے ہیں۔رچرڈ نے جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو اُسے بہت اطمینا ن وسکون ملا۔ وہ روزانہ چند گھنٹوں کے لیے باقاعدگی سے مسجد میں آکر قرآن مجید پڑھنے لگا۔جب اُسے قرآن پڑھتے دوماہ گزر گئے اور ایک آیت اُس کو اتنی پسند آئی کہ وہ مسلمان ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ وہ کون سی آیت ہے یہ آپ کو کالم کے آخر میں بتاؤں گا۔ اُس کا نام رچرڈ کی جگہ عمر سعید رکھا گیا اور کچھ عرصہ بعد وہ اُسی مسجد کا تین سال کے لیے صدر بھی منتحب رہا۔ قرآن پاک کی صرف ایک آیت نے اُس کی زندگی بدل دی اور اُس کی برکت سے اُس کے من کی بنجر زمین زرخیز اور سرسبز و شاداب ہو گئی۔ عمر سعید اس وقت امریکہ اور یورپ میں مایوسی اور نفرت کے شکار لوگوں کی counselling کرتا ہے۔ وہ ایک اسلامک سنٹر کا صدر بھی ہے جہاں قرآن مجید پر تحقیق اور جستجو کا کام ہو رہا ہے۔

قرآن پاک ایک ایسی نادر، خوبصورت اورپُراثر کتاب ہے جس کے اندر حکمت و دانائی اور ہیرے جواہرات کے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ قرآن کوسمجھ کر پڑھنے سے ایک سخت دل دشمن، شدید نفرت سے بھرا ہوا انسان کس قدر نرم اور حلیم الطبع بن جاتا ہے۔ اگر قرآن کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے تو ہماری باہر کی دنیا کے ساتھ ساتھ باطن کی دنیا بھی روشن ومنور ہوجائے گی۔ صحیح ابن حبان کی روایت ہے کہ جب سورۃ آل عمر ان کی آیت نمبر 190 نازل ہوئی جس میں فرمایاگیا ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باربار آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“ تو آیت کی تلاوت کے بعد حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ”اس پر افسوس ہے جو یہ آیت پڑھے اور اس میں غور نہ کرے“۔ سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 73 میں ارشاد باری ہے”اور جب انہیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے“۔ ہم اپنی معاشرتی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ افراد معاشرہ میں ہر 1000 میں سے صرف ایک یادو آدمی ہی ایسے ملیں گے جنھوں نے قرآن پاک کا غوروفکر اور تدبر سے مطالعہ کیا ہو۔

عربی ہماری مادری زبان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگ پوری زندگی ناظرہ قرآن پڑھنے یا سیکھنے میں ہی گزار دیتے ہیں،اگر بچپن میں ناظرہ قرآن پڑھ بھی لیا جائے تو باقی زندگی گونگے، بہرے اور اندھوں کی طرح بغیر سمجھے کہ قرآن ہم سے کیا چاہتا ہے، اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جب تک ہم لوگ قرآن پاک پر غورو فکروتدبر نہیں کریں گے تب تک ہم معاشرتی برائیوں ملاوٹ، رشوت، ذخیرہ اندوزی،بد عنوانی، حق تلفی، ظلم وغیرہ سے نجات حاصل کر سکتے اور نہ ہی حقیقی اطمینان و سکون سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ آخر میں اب اُس آیت کی طرف آتا ہوں جس کو پڑھ کر رچرڈ جیسا سخت دل اور کٹر مسلمان دشمن خود دائرہ اسلام میں داخل ہوا، وہ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 32 ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ”جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اُس نے تمام انسانیت کی جان بچائی“۔

مزید :

رائے -کالم -