اخروٹ کے پیڑوں کے خوش گوار سائے میں بہت شا نتی اور خا مو شی تھی

اخروٹ کے پیڑوں کے خوش گوار سائے میں بہت شا نتی اور خا مو شی تھی
اخروٹ کے پیڑوں کے خوش گوار سائے میں بہت شا نتی اور خا مو شی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :53
ایک سادھو ڈرائی ور:
سا ڑھے دس بجے ویگن چلی اور کچھ ہی دیر میں ہم گنیش کے بل کھا تے راستے سے گزر کر دریا ئے ہنزہ کا چینی پُل عبور کر کے پسو کا فا صلہ کم کر رہے تھے۔ بائیں ہاتھ دریا ئے ہنزہ کے پار پہا ڑوں کے اوپر التیت تھا۔نیچے سے گزرتے ہوئے پہاڑی کی کگر پرالتیت قلعہ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کو ئی بو ڑھا ، جا کر کبھی نہ لوٹنے والے گزرے دنوں کی یادوں میں گم بیٹھا ہو۔ مقدس چٹانیں گزریں جن پر سیکڑوں سال پہلے کی تحریریں اور نقش کندہ ہیں۔ خشک زرد پہاڑ دھوپ سے تپ کر دہکنے لگے تھے۔ سڑک کے آس پاس چینی مزدوروں کی عارضی بستیاں تھیں۔ ہم دریائے ہنزہ کے نیلے شفّاف پانیوں کو بائیں ہاتھ رکھتے ہوئے دریا کے مخالف سفر کر رہے تھے۔ صحت علی یعنی ہمارا ڈرائی ور ایک مطمئن اور سادھو آدمی تھا۔ اس نے اپنی زندگی سے فکر اور تیز ی کو ہمیشہ کےلئے دیس نکا لا دے دیا تھا۔ جس کا ثبوت اس کی ڈرا ئی ونگ تھی۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں سانچو پانزاکے مریل گدھے ڈیپل (Dapple) پر سوار ہوں۔موہ مایا میں پھنسے جلد باز مسافروں نے ایک دو بار اونچی آواز میں طنزاً شکر ادا کیا کہ سڑک پر کو ئی بچہ اپنی 3 پہیوں کی سائیکل نہیں چلا رہا کیوں کہ صحت علی گاڑی کو جس رفتار سے چلا رہا تھا کوئی بچہ اپنی ٹرائی سیکل پر اسے بآ سانی اوور ٹیک کر سکتا تھا۔ صحت علی اسے تعریف سمجھتے ہوئے اپنی آہستہ روی پر مزید پکا ہو گیا۔ وہ ہر مو ڑ، ہر بستی اور ہر جگہ گا ڑی روکتااور سواریاں اتارتا چڑھا تا۔ سفر طویل ہو نے سے میں خوشی محسوس کررہا تھا کیوں کہ مجھے اجنبی جگہیں دیکھنے اور محسوس کر نے کا کافی وقت مل رہاتھا لیکن مقامی مسافر سخت بیزار ہو رہے تھے۔ اس آ ہستہ روی پر تنقید کے جواب میںڈرائی ور وقفے وقفے سے گا ڑی میںتیل کم ہونے اور کسی بھی وقت ختم ہو نے کی بشارت دےنے کے علاوہ پہیوں میں ہوا کم ہو نے کی اطلاع بھی جاری کر دیتا تھا۔ جس پر تنگ آ کر مسا فروں نے صحت علی کی دما غی صحت پر کھلم کھلا شک و شبہ ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اس کے روئیے اور بے فکری سے لگتا تھا کہ وہ ایک ”ملامتی“ ڈرائی ور ہے اور صرف اپنی نفس کُشی کے لیے گاڑی آہستہ چلا کر مسافروں سے گالیاں کھا رہاہے۔
 خدا خدا کر کے آئین آ باد اور ششکٹ گزرے اور گلمت آ یا تو اس نے تیل لینے کےلئے ویگن دائیں ہاتھ سڑک کنارے ایک سنسان ورکشاپ میں مو ڑ کر روک لی لیکن یہاں ڈیزل ختم تھا اور بجلی بند تھی، اس لیے پہیو ں میں ہوا بھی نہیں بھری جا سکتی تھی۔وہ گا ڑی کھڑی کر کے کسی مسیحا کی تلاش میں غا ئب ہو گیا۔ میں بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ، جو ڈرائی ور کی شان بلند کر رہے تھے، ویگن سے اتر آ یا۔ ورک شاپ کچھ اس قسم کی تھی کہ لگتا تھا یہاں کسی زما نے میں کو ئی ورک شاپ تھی، پھر مکینک اسے چھو ڑ کر پیسے کمانے کرا چی یا کہیں اور چلا گیا اور اب صرف آ ثار ِ قدیمہ یعنی کا ٹھ کباڑ رہ گیا ہے۔ ہر طرف زنگ لگے، نا کارہ آلات اور گاڑیوں کے پارٹس بے ترتیبی سے بکھرے تھے۔ اخروٹ کے پیڑوں کے خوش گوار سائے میں بہت شا نتی اور خا مو شی تھی۔سڑک پار پتھر کی دیوار کے پیچھے خو با نیوں کا ایک با غ تھا جس میں ہرے درختوں پر سرخ خو با نیاں یوں لگی تھیں جیسے کرسمس ٹری پر خوش رنگ قمقمے آ ویزاں ہو ں۔میں سڑک عبور کر کے با غ کی دیوار کے پاس چلا گیا۔ یہ ایک مسرّت بخش منظر تھا۔ باغ میں بنے چھوٹے سے کمرے کی چھت پر ایک بڑے چھا بے میں گٹھلی نکلی شوخ رنگ کیسری خوبانیاں دھوپ میں سوکھ رہی تھیں۔ اس وقت باغ میں کوئی نہیں تھا، سوائے ایک گائے کے جو گھاس پر گری خوبانیاں چر رہی تھی۔ مجھے اپنے گائے نہ ہونے پر افسوس ہوا۔ صحت علی جانے کہاں کہاں خوار ہو کر نا مراد لوٹا، مسافروں نے اسے آسان الفاظ اور اونچی آواز میں اجتماعی لعنت ملا مت کی، سخت سست کہا جسے اس نے نظر انداز کر دیا اور ہم پھر آ گے چل پڑے۔ دریا ئے ہنزہ اب دائیں ہاتھ آ گیا تھا۔ حسینی گزرا جہاں سے واپسی پر ایک بار میں نے کا فی مشکل وقت گزارا تھا۔ گا ڑی نہ ملنے کے باعث مجھے کئی کلو میٹر پیدل چلنا پڑا تھا۔تب میں کتنا ہراساں اور پریشان تھا۔ ان دنوںسارا علاقہ مذہبی فسادات سے سلگ رہا تھا۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔