حرم کی حاضری اور سوشل میڈیا
اللہ کا شکر ہے کہ کرونا کی وبا کے بعد حرمین شریفین کے دروازے کھلے اور اہل ایما ن روحانی فیوض و برکات کے مراکز میں جوق در جوق حاضری کے لئے پہنچ رہے ہیں۔ہر چند کہ سفری اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اہل محبت کے قافلے اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں عجز و نیاز پیش کرنے کشاں کشاں کھنچے چلے جا رہے ہیں۔رمضان المبارک کے مہینے میں دنیا بھر سے بالعموم اور پاکستان سے بالخصوص زائرین کی کثیر تعداد وہاں حاضر ہوتی ہے۔دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان سرکار دوعالمؐ کی بارگاہ میں سجتا ہے اور اس خوان کرم پر بیٹھنا کسی بڑے سے بڑے دنیوی اعزاز سے فزوں تر ہے۔ یہاں کھانے اور کھلانے والے دونوں سعادتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ کھانے والا یہ سوچ کر اشکبار ہو جاتا ہے کہ کہاں میں اور کہاں میرا نصیب کہ رحمت ِ عالمؐ کے اس دسترخوان سے مجھے بھی ٹکڑے نصیب ہو رہے ہیں اورکھلانے والوں کے اس خیال سے آنسو نہیں تھمتے کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے حضورؐ کے مہمانوں کی خدمت کا مجھے اعزاز حاصل ہو رہاہے۔وہاں اپنے دستر خوان پر بٹھانے کے لئے عر ب اپنے بچوں کو زائرین کے ہوٹلوں کے باہر کھڑا کر دیتے ہیں جو وہاں سے قدم نکالتے ہی زائر کے ہاتھ پر بوسہ دے کر اسے اپنے دسترخوان تک لے جاتے ہیں اور سارے رستے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے کہ کہیں ہمارا دسترخوان اس مہمان سے محروم نہ رہ جائے۔بہت سے پاکستانی بھی وہاں رمضان المبارک میں دسترخوان لگانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ان میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میاں حنیف صاحب اور ان کی فیملی کو اللہ نے بہت برکتوں سے نواز رکھا ہے، جو رمضان المبارک میں عرصہ دراز سے سحر و افطار پہ وسیع پیمانے پر انتظامات کرتے ہیں جن کو دیکھ کر عرب بھی رشک کرتے ہیں۔ زائرین حرم کی نگاہوں میں ہر طرف ایک دلفریب منظر اور ایک ناقابل ِ بیان جہان حیرت آباد ہوتا ہے۔اس سارے جمال افروز منظر نامے میں پچھلے کچھ عرصہ سے کچھ ایسی خرافات نے جگہ بنا لی ہے جو دن بدن بہت تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہیں، جس نے اس عظیم روحانی سفر کے مقاصد اور پیمانوں کو بدل کے رکھ دیا ہے، جس میں سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ہم حاضری کی اس عظیم سعادت کا آغاز سوشل میڈیا پوسٹ سے کرتے ہیں اور اس کے بعد لمحہ بہ لمحہ اسی میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سفر پر اپنا رابطہ اللہ اور اس کے حبیبؐ سے جوڑنے کی بجائے فین کلب سے استوار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔حرم کعبہ میں طواف کی عظیم عبادت کرتے ہوئے بھی ہمیں لائیو دکھانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ دورانِ طواف حالت احرام میں جب صرف اللہ اور بندے کا تعلق قائم ہونا چاہئے ہم اسے کہیں اور قائم کرنے میں جت جاتے ہیں۔ زم زم پیتے ہوئے، صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے کوئی لمحہ ہم سوشل میڈیا سے کٹنا نہیں چاہتے۔اور پھر عمرہ کی تکمیل کے بعد خانہئ خدا کی طرف پشت کر کے تصویر بناتے ہوئے کیپشن لکھتے ہیں کہ آپ سب کے لئے دعا کی ہے اور عمرہ مکمل ہوا۔کچھ ایسا ہی حال ہم بارگاہ رسالت مآبؐ کی حاضری پر بھی کرتے ہیں۔دوجہانوں کے شہنشاہ کاوہ دربار گہر بار جہاں جنید و بایزید بھی اپنی سانسیں روکے ہوئے آتے ہیں، جہاں قدسیان فلک قطار اندر قطار صبح و شام حاضری دیتے ہیں ہم وہاں بھی سلام پیش کرتے ہوئے زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہی حاضری لگوا رہے ہوتے ہیں۔کوئی باب السلام پر کھڑا لائیو بتا رہا ہوتا ہے کہ میں اب مواجہ شریف پر حاضری دینے جا رہا ہوں لہٰذا آپ بھی اپنا سلام براہ راست پیش کر لیجئے اور پھریہ براہ راست نشریات مواجہ شریف تک یوں ہی جاری و ساری رہتی ہیں۔اچھی ریکارڈنگ کے لئے اپنا موبائل کسی ساتھی کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو قدم قدم کوریج کر رہا ہوتا ہے۔حضور کو سلام پیش کرتے ہوئے ہم اپنی کم اور اپنے موبائل کی حاضری زیادہ لگوا رہے ہوتے ہیں،جس میں نہ جانے دنیا جہان کی کیا کیا خرافات بھری ہوتی ہیں۔اور پھر باب جبریل کے باہر گنبد خضرا کی طرف پشت کر کے تصویر بنا کر پوسٹ کرتے ہیں کہ کہ سلام پیش کر دیا گیا۔یہی حال جنت البقیع میں حاضری کے دوران ہوتا ہے جہاں اہل ِ بیت اطہار اور اصحاب رسولؐ جیسی برگزیدہ ہستیاں آرام فرما ہیں۔نمازوں کے اوقات میں اذان کے وقت لائیو آنا، ریاض الجنہ میں بیٹھ کر بھی اسی سرگرمی میں مصروف رہنا اب معمول کی بات ہو گئی ہے۔ مسجد نبویؐ میں جمال گنبد خضرا میں گم ہونے اور حضورؐ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے ہم مختلف لوگوں کو ٹیلی فون کالز کرنے میں گم ہوتے ہیں۔ہم اتنی دور سے جن کے قریب ہونے کے لئے سفر کرتے ہیں وہاں پہنچ کر ان سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔ایک حد تک سفر کی یادگار کو تصویری صورت میں محفوظ کرلینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسی کو ہی حاصل سفر سمجھ لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ہم طہارتوں کے عین مرکز میں پہنچ کر بھی زیادہ تر اپنی انہی ترجیحات کے سبب دنیوی غلاظتوں سے ہی نہیں نکل پاتے۔ سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں نے ہماری روحانی زندگیوں کو ویران کر کے رکھ دیا ہے۔جہاں پہنچ پر لمحہ لمحہ دل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ہم وہاں ہر گھڑی لائیک اور کمنٹ پر توجہ مرکوز کئے رکھتے ہیں۔ہم نے اس عبادت کو بھی عادت ہی بنا لیا ہے اور یہی شمار کرتے رہتے ہیں کہ اب کتنی حاضریاں ہو گئیں لیکن یہ تو ایک وقت میں جا کے کھلے گا کہ اتنی حاضریوں میں کوئی ایک حاضری ہوئی بھی یا نہیں۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کچھ لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دیتے ہوئے فرمائے گا کہ یہ ان کے پاس لے جاؤ جن کو دکھانے کے لئے کئے تھے تا کہ و ہ ہی آج کے دن تمہیں اس کی جزا دیں۔پھر آپ ؐنے فرمایا کہ مجھے اپنی امت کے شرک اصغر یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔اللہ ہمیں حاضری کی حقیقی لطافتیں نصیب فرمائے۔آمین