سگریٹ کے بعد ویپ کا بڑھتا ہوا رجحان

Apr 23, 2024 | 01:42 PM

مہوش فضل

 ایک دن ایک  سیمینار کے سلسلے میں نجی یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا، کچھ پرانے دوست احباب ملے تو ان کے ساتھ چلتے چلتے باہر آگئے سب باتوں میں مصروف تھے کہ میرا دھیان سڑک کے پار چند دکانوں پر گیا جو پہلے وہاں موجود نہیں تھی میرے دیکھتے دیکھتے ک قریب کوئی 20 نوجوان باری باری اس میں داخل ہوئے اور جب وہ باہر آتے تو ہاتھ میں سگریٹ یا ویپ ہوتا  میرے لیے یہ ایک انتہائی  عجیب معاملہ تھا اور بہت سوچا اور پھر اس پر لکھنے کا سوچا کہ آخر ہماری نوجوان نسل کس رستے پر چل رہی ہے۔۔ 
صرف اتنا نہیں کیفے میں بیٹھے ، ارد گرد چلتے پھرتے طلباء طالبات  سب اپنی مستی میں مگن ایک ہی شغل فرما رہے تھے کچھ کے پاس اپنے تھے تو کچھ دوستوں کے ہاتھ سے لے کر دھواں اڑانے میں مصروف تھے۔ اس چیز سے بلکل بے پرواہ کہ ہمارے استاد ہمیں دیکھ رہے ہیں۔۔ یہ ہے  ہمارا پاکستان جس پر ہمیں فخر ہے ۔
جسکی کل آبادی میں سے  تقریباً 24ملین سے زائد افراد سگریٹ نوشی کر رہے ہیں ،جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے  نوجوان دیگر فیشن کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے مشغلے کو بھی ایک فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی سے تقریباً پوری دنیا میں80لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں اک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ جو اپنے تدریسی مراکز، آفس، کارخانوں میں سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔

 دراصل یہ ایک بیٹری سے چلنے والی ڈیوائس (آلہ) ہے جو ای - لیکویڈ یا جوس نامی محلول کو گرم کرتی ہے۔ ای لیکویڈ میں نکوٹین اور کھانوں میں پائے جانے والے عام فلیورز (ذائقے) ہوتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ذریعے آپ دھوئیں کی بجائے بخارات کی صورت میں نکوٹین کی خوراک لے سکتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ہی استعمال کو ویپنگ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ای سگریٹ میں موجود نکوٹین تمباکو نوشی کے دھوئیں میں شامل متعدد زہریلے کیمیکلز ٹار اور کاربن مونو آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم نقصان دہ ہیں ہم روزمرہ کے روایتی سگریٹ کو سموکنگ کہتے ہیں جبکہ الیکٹرانک سگریٹ کو E-cigaretteاور پینے کو ویپنگ VAPINGکہتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ گلی کا کونا ہو یا کوئی کیفے، وہاں موجود نوجوانوں میں سے بیشتر کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آتی تھی، مگر اب وقت بدل رہا ہے اور ماچس یا لائٹر سے جلنے والی سگریٹ کی جگہ الیکٹرانگ ای سگریٹ نے لے لی ہے۔ای سگریٹ کسی نئی ٹیکنالوجی سے کم نہیں کیونکہ اس کے مختلف ماڈلز دستیاب ہیں
پہلے ایک شیشہ متعارف ہوا ، اور پاکستان ہر نئی لت میں سر فہرست ہوتا ہے پاکستان میں جگہ جگہ شیشہ کیفے بن گئے ، پھر ان کو بین کر دیا گیا لیکن پاکستان کے گھروں میں شیشہ جوں کا توں رہا لوگ فیشن اور لت کے طور پر اسے استعمال کرنے لگے۔۔ مجھے یاد ہے جب ہم کالج میں تھے تو ہمارے کالج کے ساتھ ہی ایک شیشہ کیفے بنا تھا ہم تمام دوست  فارغ وقت میں وہاں پہنچ جاتے وہاں ایک خواب آور ماحول ہوتا تھا پورے ماحول میں شیشے کی خوشبو پھیلی ہوتی  کھانے پینے کے لوازمات کی دوگنی قیمتیں ہوتی لیکن پھر بھی وہاں رش ختم نہیں ہوتا تھا  کچھ وجوہات کی بنا پر یہ کیفے ختم کر دیے گئے لیکن  اس کی جگہ ویپ یا ای سگریٹ نے لے لی۔۔ شیشہ تو کیفے یا چند گھروں میں تھا لیکن ویپ ہر بچے کے سکول بیگ، ہر نوجوان کی جیب میں موجود ہے۔
اب رفتہ رفتہ ای سگریٹ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، عالمی سطح کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اس کا استعمال کافی حد تک شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان کے نوجوان بھی اب اس کو مسلسل استعمال کر رہے ہیں ،خاص کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور اشرافیہ ہیں ،یہ اب اک عام سی ڈیوائس سمجھی جاتی ہے 
مغربی دنیا اس کو نوجوانوں کے لیے سفید ٹیکنالوجی کہتی ہے کیونکہ، سگریٹ نوشی کے دھوئیں کے مضر اثرات آس پاس کے ماحول میں آلودگی کا سبب بھی بنتے تھے اور دیگر افراد بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے گزشتہ چند سالوں میں ای سگریٹ کو دنیا میں بہت وسعت حاصل ہو چکی ہے اور اس کے استعمال کرنے والوں کی شرح میں ہر دن حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔لیکن ہر چیز کے مثبت اثرات کے ساتھ منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں اس کا غلط استعمال ہماری نسل کے لئے تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔
محقیقین کے مطابق، ای سگریٹ نیکوٹین کی دنیا میں بہت مقبول ہو رہے ہیں اور ان پر کنٹرول سخت کرنے کی ضرورت ہےاور یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ کتنے نوجوان اس کے عادی بن رہے ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق ای سگریٹ سے ویپنگ کرنا انسانی صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے جس سے ابتدائی طور پر پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں ہماری نوجوان نسل ای سگریٹ میں نکوٹین کی کافی زیادہ تعداد کے ساتھ نشہ کی مقدار بھی شامل کر لیتے ہیں جو نوجوانوں کے دماغ کو براہ راست حملہ کرتے ہیں جس سے دماغی نشوونما کمزور ہوتے ہوتے اس کی صلاحیتیں محدود ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس سے قوت مدافعت پر اثر پڑتا ہے۔ 
اور دیگر بیماریاں بآسانی حملہ آور ہونے لگتی کہ دماغی خلیے آہستہ آہستہ اپنا کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور انسان نفسیاتی اور ذہنی مریض بن جاتا ہے ،چنانچہ مغربی دنیا نے اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی نسل نو کی بقاء کے لئے ای سگریٹ کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ہے اور بہت سے ممالک میں پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ای سگریٹ کی مانگ اور مقبولیت پاکستان میں بڑھتی جا رہی ہے،خاص کر نوجوان طبقہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ قوت خرید رکھتا ہے تو وہ ان کا مسلسل استعمال کر رہا ہے۔بہت سے ایسے بھی نوجوان ہیں جو اس عمر میں نئی چیزوں کے ساتھ تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب پاکستان میں جگہ جگہ ویپ شاپس نظر آتی ہیں اس کو سیل کرنا قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے اب ہر کوئی امیر غریب ہاتھ میں ویپ پکڑ گر فخر محسوس کرتا ہے۔ 
حالیہ برسوں میں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے کیونکہ نوجوانوں میں ای سگریٹ کا استعمال کی شرح بہت بلند ہوگئی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے لیے استعمال کی جانے والی تمام مصنوعات میں ای سگریٹ سرفہرست ہے۔ جوں جوں اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہےتو اب یہ گروسری سٹورز اور پان سگریٹ کی دکانوں پر بھی فروخت ہوتا دیکھاجا رہا ہے۔چونکہ ای سگریٹ یا ویپنگ کا سموگ عام سگریٹ سے زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان اسے فیشن، سٹائل یا دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر اس فیشن پر وقت رہتے قابو نہ پایا گیا تو یہ بہت سی معصوم ذندگیوں کو نگل جائے گا۔۔ کوئی بھی عادت کوئی بھی کام ایک خاص حد تک ہی بہتر ہوتی ہے جب وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تو نقصان دہ ہوتی ہے اسی طرح ویپ کی عادت ہے جو ایک 6 کلاس کا بچہ بھی بیگ میں رکھ کر گھوم رہا ہوتا ہے  او ر پینے میں فخر محسوس کرتا ہے۔۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس پر سختی سے ایکشن لیں حکومت کو اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ غلطی کہاں پر ہے۔ہم تو سگریٹ کا رونا رورہے تھے، اب ویپ مالز بن گئے ہیں ایک بڑے پیمانے پر ای سگریٹ کا رجحان ہمیں کسی نئی دلدل میں نہ دھکیل دے۔

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزیدخبریں