چاند عید کا؟ سائنس بھی تو دین کی حقانیت کی تائید کرتی ہے
وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ دورِ جدید کی سائنس کے ہر پہلو سے کسی طور پر بھی پاکستان میں ہفتے کو چاند نظر آنے کا امکان نہیں تھا، لیکن شمال کی طرف سے ایسا ہونا ہر لحاظ سے ممکن تھا، ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ عید الفطر منانے کے جذبے کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں ہمیشہ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت رمضان اور عید کا چاند پہلے نظر آ جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھی ایسا ہوا اور اس سال بھی یہی ہو گیا ہے، حالانکہ جب رمضان المبارک کے چاند پر مکمل اتفاق ہو گیا تو یہ بھی یقین ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس سال عید پر بھی یہی جذبہ کار فرما ہو گا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، بلکہ اُلٹا یہ ہوا کہ ایک ہی ملک پاکستان میں دو بھی نہیں چار عیدیں ہو گئیں۔ شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں میں ہفتہ اور خیبر پختونخوا کے بڑے حصے میں اتوار کو عید منائی گئی، باقی پورے ملک میں سوموار کو عید تھی، اب خبر آئی ہے کہ خیبر پختونخوا ہی کے ایک علاقے گل بہار میں منگل کو عید کی نماز پڑھی گئی۔ یوں ہم نے عید کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا اور باقی ملک میں پیر ہی کو عید منائی گئی۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں اتوار کی عید تھی کہ وہاں تیس روزے بھی پورے ہوئے تھے اب اگرپاکستان میںتیس روزے پورے ہو گئے تو کون سی قیامت آ گئی ہے؟
رویت اور سائنس کے حوالے سے ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں تفصیل سے عرض کر دیا تھا کہ پاکستان کے مغرب میں واقع وہ ممالک جن کے اوقات کار پاکستان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے اور ان میں اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے یا دو گھنٹوں سے زیادہ کا فرق ہے، یعنی پاکستان دو گھنٹے پہلے ہے۔ ایسے تمام ممالک میں کسی بھی ہجری سال کے مہینے کا چاند ہمیشہ ایک روز پہلے نظر آئے گا، اِس لئے یہ ممکن نہیں کہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ ہی پاکستان میں چاند نظر آ جائے، اس لئے رویت ہلال کے فلسفے کی روشنی میں ایک دن کا فرق ہو گا۔ اب آپ غور فرما لیں کہ چاند نہ صرف پاکستان، بلکہ بھارت اور جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک میں ہفتے کو نظر نہیں آیا۔ اتوار کو ہی دکھائی دیا اور عیدالفطر پیر کو ہی منائی گئی۔
جہاں تک پشاور اور خیبرپختونخوا کے بعض دوسرے شہروں کا تعلق ہے تو وہاں بہر صورت اختلاف ہونا تھا، سائنس کا علم رکھنے والے اور ماہرین فلکیات پریشان ہو گئے ہیں کہ جب چاند پاکستان کے اُفق پر تھا ہی نہیں تو خیبر پختونخوا والوں کو کیسے نظر آگیا، کیونکہ چاند کا نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ اُن کی حیرت اپنی جگہ ہو گی ہم سمجھتے ہیں کہ پشاور کی مسجد قاسم والے تو بوجوہ اختلاف کرتے ہیں، لیکن بلور برادران کی سوئی سعودی عرب کے ساتھ عید منانے پر اٹکی ہوئی ہے۔ حالانکہ روزہ انہوں نے سعودی عرب کے ایک روز بعد رکھا تھا۔گزشتہ سال بھی انہوں نے یہی فرمایا اور آج بھی یہی کچھ کیا ہے۔ محترم بشیر احمد بلور مسجد قاسم خود گئے تھے، لیکن غلام احمد بلور تو واضح طور پر کہتے ہیں کہ رمضان اور عید کے چاند یہاں دیکھنے کی بجائے جو فیصلہ سعودی حکومت کا ہو وہ یہاں بھی نافذ کر دیا جائے، چاہے پاکستان میں کہیں بھی چاند نظر نہ آیا ہو جیسا کہ اس بار ہوا ہے۔ رہ گئے محترمی جامع مسجد قاسم والے تو وہ ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ہدف مفتی منیب الرحمن ہیں کہ اُن کو فارغ کر کے کمیٹی کی چیئرمین شپ اُن کے مکتبہ فکر کے کسی عالم کو سونپ دی جائے اب اُن سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے واقعی ر مضان اور عید کے چاند پر فیصلہ ہو جایا کرے گا؟ اُن کی طرف سے یقینا مثبت جواب آئے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان حضرات کے اپنے سے دوسرے مسلک کا چیئرمین رویت ہلال کمیٹی برداشت نہیں ہو پا رہا۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن کی بھی تو سن لیں کہ جو ایک بات کہہ کر پھر ارادہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھتا نہیں ہے انہوں نے پہلے فرمایا: ”ہم تو مرکز کے ساتھ جائیں گے“ اور مرکز کے ساتھ تو آ گئے، لیکن نماز عیدالفطر نہ صرف یہ کہ خود پڑھائی، بلکہ عید اتوار ہی کو منائی۔
قارئین! ہمارے علماءکرام و عظام سائنس کی حقیقت کو بہت زیادہ تاخیر سے پہچانتے ہیں حالانکہ آج کا دور تو ہے ہی نت نئی ایجادات کا ، اس سلسلے میں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے ساتھ بیتی آپ کو ضرور بتائیں گے۔ یہ ایوبی دور کی بات ہے جب رویت ہلال کمیٹیوں کی شکل یہ نہیں تھی، بلکہ ڈپٹی کمشنر اطلاعات مہیا کرتے اور عید کا اعلان مرکز کی طرف سے ہو جاتا۔ ان دنوں ہمارے بزرگ لاﺅڈ سپیکر کو بھی حرام قرار دیتے اور اپنے پاکستان میں ٹیلی فون بھی نہیں سنتے تھے۔ ایک عید پر یوںہوا، ہم اکمل علیمی کے سامنے بیٹھے خبریں بنا رہے تھے کہ افطار کا وقت ہوا۔ روزہ افطار کیا تو چاند کا انتظار ہونے لگا، ایسے میں ڈپٹی کمشنر کی طرف سے اعلان ہو گیا کہ چاند نظر آ گیا۔ اس لئے عید کل ہو گی، ہم نے دفتر (امروز مرحوم) میں ساتھیوں کو عید کی مبارک دی اور پھر محترم دوست امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو فون کر کے عید کی مبارک باد دی تو انہوں نے ہم سے چلے آنے کو کہا اور بتایا کہ سید صاحب کی طرف جانا ہے۔ مفتی سید ابو البرکات ان (خلیل) کے چچا بھی تھے۔ ہم بھاگم بھاگ باغیچی صمدو پہنچے تو وہ ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے، چنانچہ جونہی ہم نے سلام کیا وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہم اندرون دہلی دروازے میں جامع مسجد (دیدار علی شاہ) پہنچے جس کے اوپر والے حجرے میں سید صاحب تشریف فرما تھے اور اُن کے ساتھ اُن کے صاحبزادے مرحوم سید محمود احمد رضوی اور دوسرے عقیدت مند بھی تھے۔ سید صاحب نہ تو لاﺅڈ سپیکر پر خطاب کرتے (بعد میں کرنے لگے تھے) اور نہ ہی خود فون سنتے تھے۔ چنانچہ یہ ذمہ داری بھی علامہ محمود احمد رضوی ہی نبھاہ رہے تھے۔ مقصد اس نشست کا شوال کے چاند کی شہادتیں لے کر اعلان کرنا تھا۔ لاہور سے کوئی اطلاع نہیں آ رہی تھی، اس عرصے میں اوکاڑہ سے مولانا غلام علی اوکاڑوی (مرحوم) کا فون آ گیا۔ سید محمود رضوی نے ان سے حال چال دریافت کرنے کے بعد چاند کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اوکاڑہ میں مصدقہ شہادتیں مل گئی ہیں اور مَیں (اوکاڑوی) نے عید کا اعلان کر دیا ہے۔ ہم نے نعرہ¿ تحسین بلند کیا تو ہمیں سید صاحب کی طرف سے جھاڑ کھانا پڑی۔
یہ صورت حال مایوس کن تھی۔ سید ابو البرکات نے فون پر کی جانے والی بات چیت کو شہادت کے طور پر رد کر دیا،جب حل دریافت کیا گیا تو بتایا گیا کہ شہادت ال شہادت کا فلسفہ بروئے کار آئے گا کہ جن حضرات نے چاند دیکھا اُن سے چار افراد جا کر شہادت لیں اور پھر آ کر شہادت دیں تو اعلان ہو سکتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے لنڈے بازار والے شیخ ابراہیم کی کار پر اپنی زندگی کو داﺅ پر لگا کر تیز رفتاری سے تمام حدود پار کیں۔ بزرگوں کو اوکاڑہ پہنچایا پھر شہادت لے کر واپس بھی اسی رفتار سے آئے تو سید صاحب اور باقی احباب روزے سے تھے۔ بہرحال یہاں گواہی دی گئی، سید محترم نے پھر فتویٰ جاری کیا اور عید ہو گئی، ہم گھر آئے اور نہا دھو کر نماز کے لئے گئے ،پھر واپس آ کر کام چھوڑ کر سو گئے تو رات کی خبر لائے، تو عرض یہ ہے کہ وقت کی بات ہے اور پھر ایک وقت وہ آیا جب وہی محمود رضوی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہو گئے تو زونل کمیٹیوں کی اطلاعات فون پر ہی لیا کرتے تھے۔ سو مہربانو! قوم پر رحم کرو، سائنس کو مان لو کہ دورِ جدید میں سائنس بھی تو اسلامی حقیقت ہی کو بیان کرتی ہے، اس لئے چاند کے معاملے میں سائنس اور سائنسی آلات سے مستفید ہونے میں کوئی برائی نہیں۔ یہ نہیں کہ اختلاف لازمی ہو اور اس کے پیچھے بھی ایک ہی مسلک کے لوگ ہوں اور مطالبہ ہو کہ چیئرمین کو ہٹایا جائے، جو اُن کے مسلک کا نہیں ہے۔ ٭