انتخابی عمل میں نوجوان ووٹروں کی اہمیت
انتخابات میں رائے دہندگان کے رویے اور رجحان کا ان کے طبقے، نسل، قبیلے، عمر یا تذکیر و تانیت کی تفریق سے درست اندازہ لگانا ممکن نہیںہے ، تاہم دنیا بھر میں انتخابی عمل کے ماہرین کے نزدیک یہ معروضات خصوصی دلچسپی کے حامل ہیں۔ ہاں، اگر کوئی تنظیم ووٹ ڈالنے والوںکے رجحانات کو مربوط انداز میں جانچے ووٹروں کو سوالنامہ دیا جائے اور اُن سے ان کی پسندیدہ جماعت، امیدواریا ان کو پسند کرنے کی وجوہات دریافت کرنے کے لئے سوالات پوچھے جائیں اور اس کا سائنسی طور پر ڈاٹا اکٹھا کیا جائے تو اس کی بنیاد پرشاید کچھ پیشین گوئی ممکن ہو۔ کئی عشروںسے معلومات اکٹھی کرتے ہوئے انتخابی عمل کے ماہرین نے کچھ پیمانے وضع کئے ہیں ،جن کی بنیاد پر وہ انتخابی رجحانات کا اندازہ لگاتے ہیں، مگر یہ پیمانے انتخابی عمل میں شریک عوام کا کوئی حتمی یا قطعی جائزہ پیش نہیں کرتے، بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی معروضات جیسا کہ ملکی حالات، معاشی مسائل ، سیاسی جماعت یا امیدوار کی ساکھ ان پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستانی رائے دہندگان کا انتخابی رویہ کس امر کی غمازی کرتا ہے؟اس کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ عام طور پر اس کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ انتخابات کی شام امیدوار کی پارٹی پوزیشن یا اس کے حاصل کردہ ووٹ کی بنیاد پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ ”گیلپ پاکستان “ کے علاوہ شاید کوئی سروے کرنے والی تنظیم یہاں موجود نہیں ہے، چنانچہ قبل ِ از وقت تبصرے غیر واضح ہی رہتے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک ”گیلپ پاکستان “ یا اس طرح کی دیگر تنظیموں کو ترقی نہیں دی جاتی۔
انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹ جس رویے کا اظہار ہوتے ہیں ،وہ سماجی، معاشی، سیاسی اور ذاتی نوعیت کے عوامل کے عکاس ہوتے ہیں۔ سیاسی اور انتخابی عمل کے ماہرین کے نزدیک یہ عوامل بہت دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔جس وقت ہم ذات، نسل، قبیلے، گھرانے یا دیگر سماجی روابط کی بات کرتے ہیں ، ہم ” فرد “ کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں دو بے بنیاد اور غیر مرئی مفروضات قائم کرنے کی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں پہلا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میںحالات ”جوں کے توں “ ہیں اور اس میںکوئی قابل ِ ذکر تبدیلی واقع نہیںہوئی ۔ دوسرا ، یہ کہ افراد، چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوںیا اُن کے سماجی اور معاشی معاملات جیسے بھی ہوں، وہ بہرحال کسی وسیع تر سماجی ربط سے باہر نہیں ہیں اور اس گروہ سے تعلق اُس فرد کے سیاسی تعلق پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان تبدیل ہو چکا ہے اور ایک غیر معمولی تبدیلی کے عمل سے بھی گزر رہا ہے، چنانچہ پاکستان کے سیاسی معاملات پر نظر دوڑاتے ہوئے ہمیں اپنا زاویہ نگاہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ اگلے عام انتخابات کا مرحلہ زیادہ دور نہیں، ضروری ہے کہ ہم ان رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھیں۔ انتخابی عمل کے لیے مرتب ہونے والی نئی فہرستیں ظاہر کرتی ہیںکہ ان میں سے نصف سے زیادہ نوجوان ووٹر ہیں، جن کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ ہم قطعی طور پر تو نہیں جانتے کہ ان نوجوانوں (جو پہلی مرتبہ انتخابی عمل میں شریک ہونے جارہے ہیں ) کا رجحان کیا ہوگا، مگر ان کو طے شدہ نستعلیق پیمانوںپر پرکھنا غلطی ہوگی۔ ان کو انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے والی کوئی فیصلہ کن قوت سمجھنا بھی درست نہیںہے ۔ اصل حقائق تو انتخابی عمل سے ہی سامنے آئیںگے، مگر بیرونی ممالک سے غیر جانبدار سروے کرنے والی تنظیمیں، جیسا کہ ”Pew Research Centre“ کے لئے گئے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ”کپتان “ مقبولیت کے لحاظ سے نواز شریف اور آصف علی زرداری سے کہیں آگے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے لئے یہ سوچ ایک ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں کہ نوجوان ووٹروں کااگلے عام انتخابات میں رجحان کیا ہوگا؟ عوامی رابطوں سے دور، آصف علی زردای اور نواز شریف ذاتی طور پر بہت بڑی سیاسی جماعتوں کے قائد ہیں اور انہوںنے اپنی سیاسی بساط میں اپنی سیاسی سوچ سے وضع کردہ پیمانے طے کررکھے ہیں۔ اب سے لے کر عام انتخابات تک یہ بات بہت دلچسپ ہو گی کہ نوجوان ووٹر جو فی الحال پی ٹی آئی کی قوت سمجھے جاتے ہیں کے رجحانات کس طور بدلتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ عمران خان بھی،جنہوںنے زیادہ تر نوجوانوں کو متاثر کیا تھا ،کیونکہ یہ لوگ روایتی طرز ِ سیاست سے بیزار تھے، اب ویسا ہی سیاسی نیٹ ورک قائم کر چکے ہیں جو ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوںکا خاصا رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ نوجوان ووٹرز بھی اب کلی طور پر عمران خان کی قوت نہیں رہیں گے۔ ایک اور بات.... اس تبدیلی کا اثر دیہی علاقوں کی بجائے زیادہ تر شہری حلقوں میں دیکھنے میں آئے گا ۔ فی الحال نہیں کہا جا سکتا کہ بدلتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل کے ہوتے ہوئے کیا موجودہ سیاسی معروضات قائم رہیں گے یا پھر روایتی حکمرانوں کو اپنی کارکردگی کی بنا پر عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہونا ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ نوجوان ووٹروں کی مرتکز فعالیت یا ژولیدہ فکری سیاسی جماعتوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔
مصنف، معروف کالم نگار، تجزیہ نگار اور ”LUMS“ کے ڈین ہیں۔ ٭