ترک صدر دوبارہ یہ منصب سنبھالنا چاہیں گے؟
ترکی کی حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(اے کے پارٹی) کی تین نمایاں ترین شخصیات میں ملک کے صدر عبداللہ گل بھی شامل ہیں۔ اے کے پارٹی فوجی بغاوت کے بعد28 فروری1997ءکو قائم کی گئی تھی۔ اِس پارٹی نے مذہبی گروپوں کے کاروباری اداروں اور نمایاں شخصیات کو توجہ کا مرکز بنایا۔ نیشنل ویو کے روایتی گروپ سے الگ ہونے والے سیاست دانوں نے اے کے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ نیشنل ویو کی روایت نے اس سے قبل ورچوپارٹی، ویلفیئر پارٹی اور نیشنل سالویشن پارٹی بنائی تھی۔
اے کے پارٹی نے3نومبر2002ءکو پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور بھرپور کامیابی حاصل کی، تب سے اب تک پارٹی اقتدار میں ہے۔ رجب طیب اردوان ، عبداللہ گل اور بلند آرنک اس پارٹی کی نمایاں ترین شخصیات ہیں۔ ان تینوں شخصیات نے اب تک غیر معمولی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مختلف حلقوں نے اے کے پارٹی کو اقتدار سے محروم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں، مگر ان تینوں نے غیر معمولی دانش مندی سے ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا۔ ترکی کو کمزور کرنے کی خواہش مند قوتوں نے عبداللہ گل کو صدر کے منصب تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی، مگر عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے انہیں صدر بنا کر دم لیا۔ مخالفین کو اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ عبداللہ گل کی اہلیہ سکارف استعمال کرتی ہیں، مگر یہ تو محض بہانہ تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ کمال پاشا کے نظریے پر یقین رکھنے والے کسی بھی حال میں اقتدار عوام کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ایک طرف تو شرعی قوانین کی آمد سے ڈرانے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ جدید طرز زندگی اور سیکولر ازم کو خطرہ لاحق ہے۔
صدر عبداللہ گل کے انتخاب کے بعد یہ معاملہ اُٹھا کہ صدر کے عہدے کی میعاد پانچ سال ہونی چاہئے یا سات سال۔ حکومت نے خاصے عرصے تک اس معاملے کو نظر انداز کیا۔ اس کا فیصلہ بھی ریفرنڈم کے ذریعے کیا جانا تھا۔ سوال یہ تھا کہ نیا قانون اطلاق پذیر ہو گا یا پرانا اور یہ بھی کہ عبداللہ گل دوسری بار صدر کے منصب پر فائز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ اے کے پارٹی چاہتی تو اس معاملے کو نمٹا سکتی تھی، مگر اس نے کوئی وضاحت کرنے کے بجائے ابہام کو طویل مدت تک برقرار رہنے دیا۔ آئینی عدالت نے اب یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ صدارتی انتخابات2014ءمیں ہوں گے اور عبداللہ گل دوسری مدت کے لئے بھی صدر بننے کے اہل قرار پائے ہیں، یعنی وہ چاہیں تو صدارتی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔
تصور یہ کیا جا رہا تھا کہ رجب طیب اردوان غیر معمولی اختیارات کے صدر بننے کے خواہشمند ہیں۔ اس منظر نامے میں عبداللہ گل کہیں بھی نہیں تھے۔ صدر عبداللہ گل اس معاملے پر کچھ بولنے سے گریز کرتے ہیں۔ صدارتی ترجمان احمد سیور نے گزشتہ دنوں روزنامہ وطن کو انٹرویو میں بتایا.... ”صدارتی عہدے کی میعاد کے حوالے سے ابہام دُور کرنے کے مراحل میں کئی مواقع پر صدر انتخاب لڑنے سے دوچار ہوئے۔ صدر کو دوسری مدت کے لئے انتخاب لڑنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ آئینی عدالت نے واضح کر دیا تھا کہ ایسی کوئی بھی کوشش غیر آئینی کہلائے گی۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے عدالت کی یہ رائے بھی ٹھکرا دی اور اسے غیر آئینی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ صدر نے اب تک غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ وزیراعظم سے اُن کا کسی معاملے میں اختلاف ہے۔ صدر عبداللہ گل اے کے پارٹی میں جس مقام پر ہیں ،اس کا تقاضا ہے کہ انہیں اس قدر احتیاط پسندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور جلد از جلد وضاحت کر دینی چاہئے تھی“۔
احمد سیور کسی بھی حالت میں صدر کی اجازت کے بغیر یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس سے صدر پریشان ہیں اور اپنی رائے دینا چاہتے ہیں۔ کیا صدر عبداللہ گل دوسری مدت کے لئے بھی میدان میں اُتریں گے؟ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے اور اردوان کے درمیان اعتماد کے رشتے کو نقصان پہنچانا گوارا نہیں کریں گے اور اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ2007ءمیں رجب طیب اردوان نے اپنی خواہش کی قربانی دیتے ہوئے عبداللہ گل کو صدر کے منصب پر فائز کیا تھا، یعنی اب وقت آ گیا ہے کہ عبداللہ گل نیکی کا بدلہ نیکی سے دیں اور تشکر کا اظہار کریں! حسین سیلک کا بیان صدر کے خلاف براہ راست اقدام کے مترادف تھا۔
آئیے، ہم معاملات کو درست پس منظر میں رکھنے کی کوشش کریں۔2007ءمیں رجب طیب اردوان نے اگر صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا تو اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ عبداللہ گل کے معاملے میں وسیع النظر اور سخاوت کا مظاہرہ کر رہے تھے، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ چیف ایگزیکٹو (وزیراعظم) کے منصب پر فائز رہنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ اے کے پارٹی کے مخالفین بھی عبداللہ گل کو صدر کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے تیار تھے، کیونکہ ان کے مو¿قف میں نرمی اور لچک تھی۔ ان کے خلاف کم مزاحمت کا امکان تھا۔ جس طبقے سے حکومت چھینی گئی تھی، اس سے لڑنے کے لئے اردوان نے جن اصلاحات کا اعلان کیا تھا، اُن کی بقا کے لئے بہتر یہ تھا کہ وہ کمزور صدر بننے کے بجائے طاقتور وزیراعظم رہیں۔
اب اے کے پارٹی غیر معمولی استحکام سے ہمکنار ہو چکی ہے اور پارٹی کے قواعد کی رُو سے رجب طیب اردوان کو پارلیمنٹ کی رکنیت کم از کم ایک مدت کے لئے ترک کرنی پڑے گی اور دوسری طرف صدر کی حیثیت سے وہ، ایک وفادار وزیراعظم کی موجودگی میں، درحقیقت ملک کے حکمران رہیں گے۔ یہ معاملہ تشکر یا وفاداری کا نہیں، اس لئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ صدر عبداللہ گل کی طرف سے کوئی نہ کوئی حیرت انگیز فیصلہ ضرور سامنے آئے گا۔ ٭