خوراک کی عالمی قیمتیں بڑھنے کی وارننگ
عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ سمیت بعض دوسرے ملکوں میں اشیائے خوراک کم پیدا ہوں گی، جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا اور قیمتوں کے حوالے سے کم و بیش وہی صورت حال پیدا ہوجائے گی جو 2007-08ءمیں ہوگئی تھی اور دنیا بھر میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ امریکہ میں گاڑیوں اور طیاروں کو ایتھنول سے چلانے کے جو کامیاب تجربات کئے گئے تھے، وہ بھی وقتی طور پر معطل کرنا پڑے کیونکہ ایتھنول حاصل کرنے کے لئے مکئی وغیرہ کا بے تحاشا استعمال ہوتا تھا جس کی وجہ سے مکئی کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اس وقت امریکہ میں مکئی کی پیداوار چھ سال میں سب سے کم سطح پر ہے۔ سویابین کی پیداوار بھی کم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے محکمہ زراعت کاخیال ہے کہ اِن دونوں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ بھارت میں بھی مون سون کی کم بارشوں کی وجہ سے خوراک کی پیداوار کم ہوگی اور قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ ایشیا میں چاول کی قیمتوں میں بھی دس فیصد اضافے کا امکان ہے۔ بھارت اور تھائی لینڈ بڑی تعداد میں چاول برآمد کرتے ہیں، بھارت کے وزیر خوراک نے ابھی حال ہی میں پارلیمینٹ کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ کم پیداوار کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستان زرعی ملک ہے اور گزشتہ کئی سال سے عوام کی بنیادی خوراک گندم میں خودکفیل ہے اور تھوڑی بہت گندم برآمد بھی کرتا ہے۔ اگر بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے اور بروقت فیصلے کئے جائیں تو زیادہ گندم برآمد ہوسکتی ہے۔ پاکستان چاول بھی برآمد کرتا ہے، لیکن مون سون کی کم بارشوں اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ٹیوب ویلوں کی بندش کے باعث اس برس چاول کی فصل میں کمی کا امکان ہے۔ چینی پاکستان کے پاس وافر ہے اور برآمد بھی کی جارہی ہے۔ البتہ پاکستان کو سویابین سمیت خوردنی تیل درآمد کرنا پڑتا ہے جس پر بھاری زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے اور پاکستان میں اس وقت صارفین کو خوردنی تیل بہت مہنگے داموں حاصل ہوتا ہے۔ برانڈڈ خوردنی تیل کی قیمت اس وقت 200 روپے فی کلو سے زائد ہے اور جن دنوں عالمی منڈی میں یہ تیل سستا تھا، اس وقت بھی یہاں مہنگے داموں فروخت ہورہاتھا۔ خوردنی تیل مکئی اور سویابین سے بھی حاصل ہوتا ہے جس کی پیداوار اگر امریکہ (یا دوسرے ملکوں) میں کم ہوگی اور قیمتیں بڑھیں گی تو پاکستان بھی ان سے لازماً متاثر ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ابھی سے خوردنی تیل کے سلسلے میں کوئی حکمت عملی طے کرے۔ لانگ ٹرم پلاننگ میں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں روغنی بیجوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، جن میں سورج مکھی اور کینولا (میٹھی سرسوں) کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے اور جو بیج بیرون ملک سے درآمد ہوتے ہیں، اُن کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے ایک زرعی ملک کے لئے خوردنی اشیاءکی درآمد کوئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں، جو اب ہم بڑی مقدار میں درآمد کرنے لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اشیائے خوراک میں خودکفالت کے لئے جنگی بنیادوں پرکوشش کرے اور اس مقصد کے لئے بنیادی ضرورت پانی ہے، جس کے لئے ڈیم بھی ترجیحی بنیادوں پر بنانے چاہئیں، جن سے ہم نے مجرمانہ غفلت برت رکھی ہے۔ ٭