اس عہد کو بلھے شاہ کی ضرورت ہے!
موجودہ دور اور بلھے شاہ کے ُدور میں رتی برابر بھی فرق نہیں، ان کا عہد اخلاقی طور پر انحطاط و زوال کا عہد تھا، معاشرہ پر تباہی کے آثار بری طرح نمودار ہو چکے تھے، مذہب کی روح اختتام پر تھی، پُرآشوب اور پُرفتن دور تھا، تاریخ و تحقیق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ سماجی و مذہبی حالت ابتر تھی، انسانوں میں کہتری و کمتری کا رواج بدستور قائم تھا، خدا پرستی کی بجائے نفس پرستی، توہم پرستی کی رسومات باقی تھیں، حکمران طرح طرح کے داخلی شورشوں اور خارجی خلفشارات سے دوچار تھے، بدامنی و طوائف الملوکی پورے طور پر غالب تھی، لٹیروں نے ہمہ جہت غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا تھا، ہر قصبہ، ہر قریہ مار دھاڑ اور خونریزی کی لپیٹ میں تھا۔
بہرکیف اپنے حالات کی بلھے شاہ نے بڑی بے باکی سے ترجمانی کی ہے اور آئندہ نسلوں کے لئے اپنا پیغام چھوڑا اور انہوں نے اپنے دور کی ریاکاری، بددیانتی، دکھلاوے، جھوٹ، فریب اور لالچ کی بندگی کو کچھ ایسے بیان کیا:
نت پڑھائیں استغفار
کیی توبہ ہے ایہہ یار
سانویں دے کے لویں سوائی
راہدیاں دی توں بازی لائی
مسلمانی ایہہ کتھوں آئی
بلھے شاہ ایک غیر روایتی عالم کے طور پر بھی ابھرے اور انہوں نے موٹی موٹی کتابیں پڑھنے والے بے عمل عالموں کو للکارا کہ زیادہ مسئلے بازی سے انسانیت تنگ پڑ جاتی ہے اور زیادہ فقہ سے انسان مفرور ہو جاتے ہیں، اس صورت حال کو اپنی شاعری میں وہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
کیوں پڑھنائیں گڈ کتاباں دی
سر چانائیں پنڈ عذاباں دی
ہن ہو یا شکل جلاداں دی
اگے پینڈا مشکل بھارا اے
اک الف پڑھو چھٹکار ہے
ہر مسلمان، بلکہ ہر پاکستانی پر یہ حقیقت آشکار ہے کہ آج ہمارے گلے میں جو ذلالت کا طوق ڈال دیا گیا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی ایک ہی وجہ دنیا داری سے محبت ہے، بلاشبہ دنیا فنا پذیر ہے اور یہ فنا ہو کر ہی رہے گی، وقت نہایت قلیل ہے اس کو فضول باتوں اور کاموں میں نہیں گنوانا چاہئے اسی لئے بلھے شاہ کہتے ہیں:
کتھے ہے سلطان سکندر
موت نہ چھڈے پیر پیغمبر
کوئی ایتھے پائیدار نہیں
اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں
ایہہ سون تیرے درکار نہیں
جہاں تک بلھے شاہ کی شاعری کا تعلق ہے تو اس کو عمومی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلا حصہ مرشد کی تلاش اور اس کے کرشماتی وجو د سے متعلق ہے۔ شاعری کا دوسرا حصہ وحدت الوجود سے جڑا ہوا ہے، اپنے محبوب سے بے پایاں عشق اور ہجر کی کرب آمیز کہانی۔ اس کے کلام کا تیسرا حصہ اپنے عہد کے بنیاد پرست ملاﺅں اور مقتدر طبقے کے خلاف احتجاج سے متعلق ہے، شاعری کے چوتھے حصہ میں انسان دوستی، پیار ، محبت، امن، رواداری، اطاعت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں جس موضوع کو چھیڑا اس کے باریک سے باریک نکات و حقائق کو انتہائی دلکش اور لطیف پیرائے میں پیرودیا ہے، لہٰذا ان اصناف شاعری کا مختصر سا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ انہوں نے کافیاں، سی حرفیاں، دوہڑے، باراں ماہے، اٹھوارے اور گنڈھاں لکھے ہیں۔ ویسے آپ کے دور میں آپ کو ایک باغی شاعر کہا جاتا تھا۔ بلھے شاہ کے بقول ان کے دور میں نظام تدریس اور علم کا حصول لفظوں کا کھیل یا مداری کا تماشہ بن کر رہ گیا تھا جو عالم علم پڑھاتے تھے وہ خود بھی اس علم سے مستفید نہ ہو پاتے تھے، لہٰذا بلھے شاہ پہلے سے موجود جوابات کو شک کی نظر سے دیکھتے اسی لئے باغی کہلائے۔ موجودہ دور میں بھی ہمارا نظام تعلیم اپنی ناقص حالت پر کھڑا ہے، لیکن آج اس عہد کو بلھے شاہ کی ضرورت ہے وہ کہتے ہیں:
اینوں قصے کاہنوں گھڑناں ایں
تے گلستان بوستان پڑھنا ایں
اینویں بے موجب کیوں لڑناں ایں
کس الٹ وید پڑھایا ہے
بلھے شاہ ایک باخبر اور محتاط صوفی شاعر تھے، وہ سکون کے مندر کے باسی تھے، جہاں کوئی اونچ نیچ نہیں وہ ہونٹوں پر آئی ہوئی بات کہنے سے نہ ڈرتے تھے، سچ کا اعلان کرنا اور پھر اس پر دیدہ دلیری سے ثابت قدم رہنا ان کے پیغام کا محور تھا، وہ کہتے ہیں:
جس پایا بھید قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر سا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
اگر یہ کہا جائے کہ آج کے عہد کو بلھے شاہ کی شاعری کی ضرورت ہے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ موجودہ دور میں جو غموں کے سیلاب کا ریلا آیا ہوا ہے، اس نے ہر چیز کو اپنی زد میں لے رکھا ہے، لہٰذا غموں کے سیلاب کے ریلے کو بلھے کی شاعری پر عمل پیرا ہو کر ہی سکھ کے سانس میں بدلا جا سکتا ہے، کیونکہ آج بھی عورتیں گھروں میں، کسان کھیتوں میں، بچے گلیوں کوچوں میں، صوفیا خانقاہوں میں، حضرت بلھے شاہ کے کلام کو پڑھتے اور سراہتے ہیں، کیونکہ ان کے کلام کا ایک ایک حرف اسرار الٰہی اور عشق حقیقی کا امین ہے۔ آ پ کے کلام کے ایک ایک مصرعے سے پڑھنے والوں کے دلوں کے کئی کئی حجابات اٹھتے ہیں اور کئی اسرار و رموز ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبھی حضرت بلھے شاہ نے اپنے آپ کو ظاہر کیا تو ان کے پاکیزہ نغموں سے پنجاب کے گاﺅں قصبے اور شہر گونج اُٹھے، جن کی شہرت اپنے وطن سے نکل کر دور دور تک پھیلی، آپ کی آواز سوز، جذب اور وارفتگی سے پُر تھی۔ آپ کا ہر بیان عجز و انکساری اور احترام کا مظہر تھا، ایک قصہ مشہور ہے کہ جب حضرت بلھے شاہ نے شاعری کا آغاز کیا اور مرشد کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس فعل کو پسند نہ فرمایا بلکہ ناراضگی کا اظہار کیا، لیکن جب انہوں نے آپ کے اشعار سنے تو ان کی غلط فہمی دُور ہو گئی اور حضرت بلھے شاہ کی علمیت وقابلیت پسند کئے بغیر نہ رہ سکے۔
حضرت بلھے شاہ پر بات ہو اور عشق کا ذکر نہ آئے تو بات ادھوری رہتی ہے، اگر بلھے شاہ کے عشق کی بات کی جائے تو بلھے کا عشق خون پیتا ہے اور گوشت بھی کھاتا ہے۔ اس سلسلے میں بلھے شاہ نے یوسف ؑ، زلیخا ؑ، اسماعیل ؑ، یونس ؑ، ابراہیم ؑ، سلیمان ؑ ، زکریا ؑ، صابر، منصور ، سرمد، شمسی، شرف، قلندر، ہیر، لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، رورا جلالی وغیرہ کی مثالیں پیش کی ہیں کہ یہ عشق برائے عشق تھے، اس کے علاوہ کچھ اور مقصد نہ تھا، کیونکہ وہ عشق جو آپ کو عشق الٰہی میں ملبوس نہ کر دے وہ عشق نہ ہے اور محبت ویسے ہی خدا کا نور بن کر ہر مرد و عورت میں موجود ہے، مگر پاکیزگی شرط ہے۔ تبھی عشق میں حسن و جمال آتا ہے، باوا بدھ نے اپنی کتاب ”ہنس چوگ“ میں بلھے شاہ کو پنجاب کا رومی قرار دیا ہے۔ حضرت بلھے شاہؒ کے قریب عشق کے دو اقسام ہے۔ ایک عشق مجازی یعنی مرد کا عورت سے عشق اور دوسرا عشق حقیقی یعنی بندے کا اللہ سے عشق، اگرچہ بلھے شاہ بڑی استواری کے ساتھ خدا کے عشق میں رنگا ہوا ہے، لیکن اس نے مجازی عشق کی بات بھی اپنی شاعری میں کی ہے:
جچر نہ عشق مجازی لاگے
سوئی سیو نہ بن دھاگے
عشق مجازی داتا ہے
جس پچھے مست ہو جاتا ہے
یہ موضوع اس قدر وسیع ہے کہ اسے ایک کالم کی حدود تک محدود نہیں کیا جا سکتا ہے، لہٰذا یہاں حضرت بلھے شاہ کی علمی، ادبی اور دینی خدمات کا سرسری سا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ اس پُرآشوب اور بدامنی کے دور میں لاہور میں سینکڑوں درس گاہیں تھیں، لیکن آپ کا مدرسہ امتیازی شان رکھتا تھا، آپ کے درس میں قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ علوم و فنون کے علاوہ مثنوی مولانا روم قصوص الحکم، کتب تصوف خاص کر متقدمین صوفیہ کے حالات کا مطالعہ بہت ضروری سمجھا جاتا تھا، کبھی کبھی محفل سماع بھی منعقد ہوتی تھی۔ اکثر خواجہ حافظ ؒ، ملا محمد شیریں مغربی، احمد جام، فخر الدین عراقی، ملا بدخشی اور مثنوی مولانا روم کے علاوہ شاہ شمس تبریز کا کلام پیش کیا جاتا تھا اور اب آخر میں میں یہ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ان کی پیدائش کہاں اور کس سن میں ہوئی اس کا ذکر مَیں نے اس لئے نہیں کیا کہ متذکرہ دونوں سوالوں کا جواب متنازعہ ہے، جس پر ایک رائے نہیں، لہٰذا مَیں اس بحث میں پڑے بغیر آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت وہ قصور میں ہیں اور قصور حضرت بلھے شاہ کا ہے۔
(حضرت بلھے شاہ کا عرس ہر سال 23 تا 26 اگست 2013ءکو قصور میں ہوتا ہے) ٭