سپریم کورٹ کی عمران خان اور طاہر القادری کو دھرنے کی جگہ تبدیل کرنے کی ہدایت
اسلام آباد(مانٹیرنگ ڈیسک +اے این این) سپریم کورٹ نے عمران خان اور طاہر القادری کو دھرنوں کی جگہ تبدیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج ہر کسی کا آئینی اور جمہوری حق ہے لیکن دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے،عدالت سے اٹھ کر مظاہرین کو اٹھانا ہمارا کام نہیں،سپریم کورٹ کا دروازہ شاہراہ دستور پر کھلتا ہے،ججز کو عدالت آنے کے لئے متبادل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جبکہ عمران خان نے عدالت میں تحریری جواب جمع کرادیا ہے جس میں عدالت کو یقین دلایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان پرامن رہیں گے کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوں گے، ہم کسی بھی غیر آئینی و غیرقانونی اقدام کے حامی نہیں،عدالت حکومت کومختلف سڑکوں سے ہٹانے کا حکم جاری کرے،عدالت نے عمران خان کی درخواست پر حکومت سے جواب طلب کر لیا،طاہر القادری نے اپنے جوب میں کہا ہے کہ احتجاج اور دھرنا سیاسی معاملہ ہے ،عدالت کو اس کی سماعت کا اختیار نہیں،سیاسی معاملے میں عدم مداخلت عدلیہ کے اپنے مفاد میں ہے۔تفصیلات کے مطابق جمعہ کو ممکنہ ماورائے آئین اقدام سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ سماعت کے دوران عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے حکم پر تحریری جواب جمع کرایا جس میں عدالت کو یقین دلایا کہ تحریک انصاف کا احتجاج پرامن ہے اور پر امن رہے گا۔تحریک انصاف کے کارکنان کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہونگے۔جواب میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، عمران خان کسی بھی غیر آئینی و غیرقانونی اقدام کے حامی نہیں ہیں۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل4، 9، 15، 16، 17،19اور 25 پر امن دھرنے کی اجازت دیتا ہے۔سماعت کے دوران عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر نے تحریری جواب داخل کرایا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتجاج اور دھرنا سیاسی معاملہ ہے،عدالت کو اس معاملے کی سماعت کا اختیار نہیں ہے،سیاسی معاملے میں عدم مداخلت خود عدالت کے مفاد میں ہے۔جواب میں کہا گیا ہے کہ عوام انصاف کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، کسی کو شاہراہ دستور پر آنے سے نہیں روکا،رکاوٹیں حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی ہیں۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ مظاہرے اور دھرنے جمہوریت کو استحکام دیتے ہیں پٹڑی سے نہیں اتارتے، غریب آدمی آرٹیکل 16 کے تحت ہی اپنی آواز بلند کرتا ہے، ہم احتجاج کا وہی حق استعمال کر رہے ہیں جو وکلا نے 2009 میں ججز کو بحال کرانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ عوامی تحریک نے مسلم لیگ ن کی طرح عدلیہ پر حملہ نہیں کیا، لوگوں کی نقل و حرکت میں حکومت رکاوٹ بن رہی ہے۔حکومت نے ذمہ داری نبھانے کے بجائے معاملہ عدالتی کندھوں پر ڈال دیا ہے، سیاسی معاملات میں مداخلت عدلیہ کے لئے نقصان دہ ہے۔عدالت نے عوامی تحریک کے وکیل کو مفصل تحریری جواب آج (ہفتہ) کو جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ درخواست گزار کامران مرتضی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ دھرنوں کے باعث شاہراہ دستور عمل معطل ہے ۔شامیانے لگے ہوئے ہیں،جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ایئر پورٹ سے واپس گھر آرہے تھے تو گاڑی سے اترنا پڑا اور ایک کلو میٹر پیدل گھر آنے تک چلنا پڑا۔درخواست گزار کی جانب سے بتایاگیا کہ عوامی تحریک کے کارکن شناختی کارڈ کی چیکنگ کررہے ہیں جو انتظامیہ کا کام ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ شناختی کارڈ چیک کرنا انتظامیہ کا کام ہے وہ صورتحال کو کنٹرول کرے۔عدالت کو دھرنے ختم کرنے کی استدعا کی گئی جو عدالت نے مسترد کردی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم پانچوں جج شاہراہ دستور پر اٹھ کر مظاہرین کو شاہراہ دستور سے اٹھائیں یہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں۔عدالت نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو دھرنوں کی جگہ تبدیل کرنے کی ہدایت کی ۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ احتجاج اور دھرنے ہر کسی کا آئینی اور جمہوری حق ہے لیکن دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے،بنیادی انسانی حقوق کا مطلب آئین کی بات ہے۔سپریم کورٹ کا دروازہ شاہراہ دستور پر کھلتا ہے اور احتجاج کی وجہ سے ہمیں متادل رستے سے عدالت آنا پڑا۔یہ جگہ خالی کر کے کسی دوسری جگہ کا انتخاب کیا جائے۔سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل احمد اویس نے عدالت میں ایک اور درخواست جمع کرائی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت نے جڑواں شہروں کے داخلی راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کرنا پڑ رہا ہے۔انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ حکومت کو کنٹینر ہٹانے کا حکم دیا جائے جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کو رکاوٹوں سے متعلق جواب(آج) ہفتہ کو جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت25اگست تک ملتوی کر دی۔