اپنے اپنے جزیروں کے قیدی

اپنے اپنے جزیروں کے قیدی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاک فوج کے شعبہ تعلقا ت عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفورنے کہا ہے کہ چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی تجویز پر اگر گرینڈ ڈائیلاگ ہوا تو فوج اس کا حصہ بنے گی، فوج کا سیاست سے تعلق ہے اور نہ کسی این آر او کی منظوری دینی ہے، فنکشنل اختلاف رائے کو سول ملٹری تفریق نہ سمجھا جائے، آرمی چیف فوجی پالیسی پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے، پاکستان سب کا ہے اور ہم ایک ہیں، تقسیم دشمن کا ایجنڈا ہے ،سول اور ملٹری الگ الگ نہیں اور یہ کہ ملک کو آئین کی عملداری کی طرف لے جانا ہے۔ میں نے اس بیان کو بہت غور سے سنا اور پڑھا ہے اور مجھے اس میں کوئی بھی بات ایسی نہیں لگتی جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہو۔مجھے کریڈٹ دینے دیجئے کہ میجر جنرل آصف غفور کی باتوں میں مجھے وہ ہیر پھیر نظر نہیں آتا جو اس سے پہلے اس قسم کے بیانات میں موجود رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر بہت سارے دانشور اپنی مرضی کے بہت سارے مطالب نکالتے رہے ہیں۔ میجرجنرل آصف غفور نے اس سے پہلے ڈان لیکس کی رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی ایک ٹویٹ میں بہت ہی واضح اندا ز میں کیا تھا اور اس کے بعد اس ٹویٹ کے غیر موثر ہونے کا اعلان اس سے بھی زیادہ جرات مندانہ انداز میں کیا گیا تھا۔


یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ہمارے اب تک بنائے گئے تمام آئین منتخب وزرائے اعظم کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں او ر اس کا نتیجہ ہے کہ ستر برس کی مدت میں ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی پارلیمانی مدت پوری نہیں کر سکا اور اگر ایک ،آدھ کے حصے میں کسی طور یہ سعادت آئی تو اس کا انجام عبرت ناک ہی ہوا۔سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آئینی ترامیم کی بات کی ہے اگرچہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری دونوں آئینی ترامیم پر مسلم لیگ نون سے تعاون کو دوٹوک انداز میں مسترد کر چکے ہیں لیکن جب فوج کی طرف سے ایسے ڈائیلاگ میں شرکت پر رضامندی سامنے آئے گی جس کی دعوت خود رضا ربانی دے رہے ہوں گے تو مجھے مکمل یقین ہے کہ پیپلزپارٹی خود کو باہر نہیں رکھ سکے گی ، آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کوانکار کیا ہے اور اگر ایسی کسی ’’ دعوت‘‘ کے میزبان میاں نواز شریف نہیں ہوں گے تو پیپلزپارٹی والے خود کو آرام دہ محسوس کریں گے کہ ہمارا ایک مسئلہ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ بھی ہے۔


میں ایک مرتبہ پھر میجر جنرل آصف غفور کے بیان کی طرف آتا ہوں،وہ کہتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے تعلق ہے اور نہ کسی این آر او کی منظوری دینی ہے مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون اگرچہ آن دی ریکارڈ ہر موقعے پر یہی کہہ رہی ہے ( اور ایک ذمہ دار سیاسی جماعت کو یہی موقف اختیار کرنا چاہئے) کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اداروں نے نہیں بلکہ افراد نے کیا ہے۔میں واثق یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے اداروں تک آن دی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ وہ آف دی ریکارڈ باتیں بھی پہنچ رہی ہوں گی جن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ایک ریاستی ادارے کی تخلیق کہا جا رہا ہے مگر دوسری طرف ہمارے بعض دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے پاس بھی ایک دس، بارہ نکات پر مشتمل فہرست موجود ہے جس میں سابق وزیراعظم بارے متعدد امو ر پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اب ا س سوال کا جواب کیاہو سکتا ہے کہ اگر کسی ادارے کے کچھ ذمہ داران کو اپنے ہی ملک کے منتخب آئینی اور جمہوری وزیراعظم بارے تشویش ہو تو اس تشویش کو رفع کرنے کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے، نہایت ادب کے ساتھ محض اپنے علم میں اضافے کے لئے پوچھنا ہے کہ کیا طریقہ کار یہی ہونا چاہیئے جو اب اختیار کیا گیا ہے۔ فوج ہم سب کی ہے ، اسے سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے، اس پر اس قسم کا الزام بھی نہیں لگنا چاہئے۔


افسوس ! ہمارے ریاستی اداروں اور عوامی نمائندگان کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، بیوروکریسی سمیت ہمارے بہت سارے ادارے عوامی نمائندوں کو نااہل ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے کرپٹ ہونے کی تصویر کشی بھی کرتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی اضافی بدقسمتی یہ ہے کہ کم آئی کیو لیول کے حامل احمق یا بہت زیادہ مکار اورشاطر سیاستدان اس پروپیگنڈے کے آلہ کار اور بھونپو بن جاتے ہیں۔ مجھے کسی سیاستدان کا نام نہیں لینا کہ اس کے ترجمان سوشل میڈیا پر الزام تراشی کا بازار گرم کردیتے ہیں مگر ایک سیاسی جماعت سے اتنا ضرور پوچھنا ہے کہ آپ نے عمر بھر اسی دشت کی سیاحی کی مگر آپ کو پنجابی زبان کے ایک محاورے کے مطابق ’ کھے‘ کھانے کے سوا کیا ملا۔ کچھ شاطر لوگ اقتدار کے ایوانوں میں حصے دار رہے مگر آپ کو اقتدار بھی پچھواڑے کے سرونٹ کوارٹر سے زیادہ نہیں ملا۔میں جانتا ہوں کہ میاں نواز شریف کو نااہل کروانے والی سیاسی قوتیں کچھ ہی عرصے بعد اس’ کریڈٹ‘ سے جان چھڑاتی پھریں گی جب پلوں کے نیچے سے یہ طوفانی ا ورجذباتی پانی گزر ہو چکا ہو گا توپھر بہت کچھ اس ندی کی تہہ سے باہر نکل آئے گا۔ میں اکثر تحریر لکھنے بیٹھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں اپنے وطن سے غیر مشروط محبت کرنے اور اپنے اداروں کی دفاع وطن کے لیے عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے باوجود میرے جیسے عامی ان کی طر ف سے اپنے آپ کو فاصلے پر کیوں پاتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہمارے اداروں کوپاسبانی کے لئے کسی بھی نظریاتی سمت سے عاری شتر بے مہار ہی کیوں ملتے ہیں تو اس کی واحد وجہ یہ پاتا ہوں کہ ہم سب نے اپنے آپ کو دائروں میں قید کر رکھا ہے۔ ہم اپنے اپنے جزیروں کے قیدی ہیں جہاں ہم نے اپنے اپنے معبد بنا رکھے ہیں۔ مفاد پرست زبانوں سے شہد ٹپکاتے اور ہر جائزناجائز پر دیدہ و دل فرش راہ کرتے نظر آتے ہیں اور ہم اپنے خیالات کے جسموں سے ان کانٹوں کو اتارنے کی کوشش ہی نہیں کرتے جن کی موجودگی میں دوسرے گلے ملنے میں عار ہی نہیں بلکہ باقاعدہ تکلیف محسوس کرتے ہیں۔


گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز بہت ہی موثر اور بروقت ہے اور اس پر پاک فوج کے ترجمان کا ردعمل بھی بہت ہی خوب، ہم سب اپنے اپنے امراض کو جانتے ہیں، ہم سب بالواسطہ طور پر مباحثوں میں مصروف رہتے ہیں اور بہت سارے مقامات تو ایسے ہوتے ہیں جہاں ہم خود کلامی کر رہے ہوتے ہیں، اپنے ہی کاسہ لیسوں سے مہر تصدیق ثبت کروا رہے ہوتے ہیں۔ہمیں ان مباحثوں کو ختم کر کے اب بامعنی اور بامقصدمکالمہ شروع کرنا ہے جس کا راستہ نظر آنے لگا ہے۔ ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ دور سرکاری طور پر چلنے والے کسی ایک ٹی وی کا نہیں بلکہ مجھے اس سے بھی آگے بڑھ کے کہنے دیجئے کہ ان پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کا بھی نہیں جن کے مالکان کچھ اداروں کو ملک کا اصل شاہ سمجھتے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ بہت سارے لوگ آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں مگر کاروباری طبقات کے صحافتی برادری میں گھسنے کے بعد مجھے نظر آتا ہے کہ بظاہر دانشور سمجھے جانے والوں کی دانش بھی نوکری کی حدود پر ختم ہوجاتی ہے ورنہ ایک چینل پررپورٹروں سے لے کر اینکروں تک سب ایک ہی نقطہ نظر کے حامل کیوں ہوں؟،میں نے پی ٹی وی کا دور بھی دیکھا ہے اور اب پرنٹ او رالیکٹرانک میڈیا سے آگے بڑھتے ہوئے سوشل میڈیا کا دور بھی دیکھ رہا ہوں، یہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں ہمارے پاس تین راستے ہیں، پہلا یہ کہ ہمارے ریاستی ادارے ماضی کی طرح آئین کو تہس نہس کرتے ہوئے آمریتوں کے قیام کا شغل جاری رکھیں جو مجھے کم از کم میجر جنرل آصف غفور صاحب کے خیالات سننے کے بعد ممکن نظر نہیں آتا۔دوسرا یہ کہ کچھ متعصب اور منتقم مزاج سیاستدان قومی اداروں کو کچل ڈالیں اور یہ بھی ناممکن ہے۔ تیسرا یہ کہ ’ الا تطغو فی المیزان‘ ، یعنی آئینی اور ریاستی اداروں کوا ن کی حدود کا پابند کر دیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے، اس صورتحال کی ٹوپی سے بعض لوگ ایک مرتبہ پھر اٹھاون ٹوبی جیسا کبوتر نکال سکتے ہیں، نظام کو ایک بار پھر خراب کر سکتے ہیں لیکن ا یک دوسر ے کے خوف سے ہمیں اپنے اپنے جزیروں میں قید نہیں رہنا چاہئے،آئیے، ہمیں گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کر دینا چاہئے تاکہ اگلے برس ہونے والے انتخابات کے بعد ہم ایک ایسی اسمبلی کو وجود میں لا سکیں جو نئے عمرانی معاہدے کو تشکیل دینے کا مینڈیٹ رکھتی ہو

مزید :

کالم -