کشمیر……موجودہ صورت حال اورمستقبل کے امکانات
مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ میں کشمیر کا مسئلہ زیر غور تھا۔ خصوصی مقرر میجر جنرل(ر) جناب ندیم اعجاز تھے جو کشمیر کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ملازمت کے دوران ڈپلومیٹک خدمات بھی سرانجام دیتے رہے اور ایجنسیوں سے بھی ان کا تعلق رہا۔ تقریب میں جناب مجیب الرحمن شامی، جناب خالد محمود، جا وید نواز اور رانا امیر احمد خان نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جناب الطاف حسن قریشی اور اسلام آباد سے سعود ساحر بھی موجود تھے۔ میجر جنرل (ر) ندیم اعجاز نے مسئلہ کشمیر کے پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیا اور بتایا کہ سیکیورٹی کونسل کی ہر طرح کی قراردادیں موجود ہونے کے باوجود عالمی طاقتوں نے اس سلسلے میں کشمیریوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ انڈین وزیر اعظم مودی نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا،تازہ انتخابی مہم میں بھی اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیر یوں کی جد و جہد آزادی ختم کرنے کے لئے وہ آئین سے اس کی خصوصی حیثیت کے متعلق شقیں ختم کردے گا۔ ہمیں اس کے پروگرام کا علم تھا، لیکن کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے۔ ماضی میں جب بھی کشمیر کے سلسلے میں ہمارے لئے کوئی موقع پیدا ہوا، امریکہ نے ہمیں کچھ کرنے سے یہ دلاسہ دے کر روک دیا کہ وہ اس سلسلے میں بعد میں انڈیا پر دباؤ ڈالے گا،لیکن اس کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا۔
ویتنام کی جنگ کے موقع پر امریکہ نے پاکستان پر اپنی دو دویژن فوج وینتام بھیجنے کے لئے زور ڈالا، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارا یہ انکار امریکہ نے کبھی نہیں بھلایا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے انڈیا نے ساری صورت حال بدل ڈالی ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ وہاں کی بدلی ہوئی صورت حال کو تبدیل کر سکیں۔ اب وہاں سے کرفیو ختم کرنے کے بعدجو حالات پیدا ہوتے ہیں، ان کے پیش نظر انڈیا دیکھے گا کہ اس نے کیا اقدامات کرنے ہیں، اس کے اس رویے کے بعد ہی ہم دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ آج تک دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ سلامتی کونسل یا کسی دوسرے بین الاقوامی ادارے نے دو ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ طے کرایا ہو۔ البتہ اس کی طرف سے صرف جنگ کو روکنے کے سلسلے میں ضرور کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ انڈیا کرفیو کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کا رد عمل دیکھ کر تمام آپشنز استعمال کرے گا۔ ہمارے اور ان کے کشمیر کے درمیان سیز فائر لائن، جو شملہ معاہدے کے بعد کنٹرول لائن بن چکی تھی، اب ایک بار پھر سیز فائر لائن بن گئی ہے۔ وہاں دونوں طرف سے گولہ باری کا ہونا روز کا معمول بن چکا ہے۔ انڈیا ہاٹ پرسوٹ آپریشن کی بات کرتا رہا ہے، لیکن اس نے آج تک پاکستان کے بارڈر کے اندر آکر کوئی آپریشن نہیں کیا، تاہم بالاکوٹ میں اس کے جہازوں نے آکر ”سٹیٹس کو“ ختم کیا، اور دنیا کو یہ بتا دیا کہ وہ انٹرنیشنل بارڈر بھی کراس کر سکتا ہے، تاہم اس موقع پر ہم نے ان کے جہازوں اور پائلٹس کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایک الگ بات ہے۔
اب انڈیا نے اپنے آئین کی شق35۔اے میں جوتبدیلی کی ہے، اس کے بعد کشمیر کی آباد ی میں بہت تیزی کے ساتھ بڑی تبدیلی آئے گی۔ کرفیو اٹھنے کے بعد وہاں مسائل پیدا ہوں گے۔ اس سلسلے میں انڈین سپریم کورٹ بھی کوئی فیصلہ نہیں دے گی۔ وہاں انڈین سرمایہ دار بڑی سرمایہ کاری کریں گے، چند لاکھ ہندوؤں کو جلد سے جلد یہاں لا کر آباد کیاجائے گا، جس سے کشمیر کی مسلم اکثریت کی صورت حال بدل جائے گی۔ اگر انڈیا ہمارے ہاں دہشت گرد بھیجتا ہے تو ہمیں بلوچستان اور سندھ میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مودی نے پلوامہ کے ایشو پر اپنے ملک میں حمایت کی اور اسی ایشو پر وہ انتخابات جیت گیا۔ پاکستانیوں کو کشمیر کے سلسلے میں اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنا چاہئے، لیکن فی الحال ہمارے لئے خوش فہمی کی بھی کوئی بات نہیں۔ پاکستانی فتح کا نشان بناتے ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم نے انڈیا کا کوئی علاقہ فتح کرلیا ہے؟ہمیں کشمیر کے سلسلے میں اپنی تاریخ، فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی، اور تائیوان کے سلسلے میں چین کی پالیسی کو پیش نظر رکھنا چاہئے، لیکن اگر انڈیا کی طرف سے ہمارے خلاف کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ پوری دنیا میں سفارتی سرگرمیوں کو اور زیادہ موثر بنائے۔یہ کوشش کی جائے کہ اقوام متحدہ کی فورس پورے مقبوضہ کشمیر میں نہیں تو کم از کم سری نگر میں ضرور تعینات کی جائے۔ نیو یارک میں ہمارے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کو سرگرم ہونا چاہئے۔
ہمارے سفیروں کی عالمی امن کے لئے کام کرنے والے اداروں سے مسلسل ملاقاتیں رہنی چاہئیں۔آرگنائزیشن آف اسلامک کنڑیز (او آئی سی) میں کشمیر کا ایک مستقل مندوب ہے، لیکن اس کا کوئی کام نظر نہیں آتا،اسے کم از کم کچھ بیانات ہی دینے چاہئیں۔پاکستان میں ہمیں تمام تھنک ٹینکس اور سول سوسائٹی کی آوازکو اس سلسلے میں بلند کرنا چاہیے۔ کشمیر کمیٹی کو چیئرمین فخر امام کی سربراہی میں زیادہ سرگرم ہونا چاہیے۔ ان کا سربراہ بننا اس لحاظ سے اہم ہے کہ کشمیر کمیٹی کے کوئی سربراہ پہلی بار وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں نظر آئے۔ ہمیں کشمیر میں مسلم کانفرنس کو مضبوط بنانا چاہیئے۔آخری اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھر کو بھی درست کرنا چاہیے۔ آزاد کشمیر میں مزید اور موثر ترقی ہونی چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کشمیر اور اپنی جوہری طاقت کے سلسلے میں ہماری پوری قوم متحد ہے۔ اگر انڈیا نے ”سٹیٹس کو“ بدل دیا ہے تو اب ہماری طرف سے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، ہمیں بھی ”سٹیٹس کو“ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم شام، مصر یا اردن نہیں ہیں۔ ہمیں زیادہ توانائی اور تیزی سے کام کرنا ہوگا۔کرفیو اٹھنے کے بعد پہلے دو ہفتے بہت کچھ واضح کردیں گے۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ کشمیریوں نے طویل جد و جہد کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا کیا ہے۔ ہم نے روس کو افغانستان سے نکال دیا، روسی گئے، جنیوا معاہدہ ہوا، لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ مودی انتخابات جیت کر آئے گا تو مسئلہ کشمیر کا حل آسان ہوجائے گا، لیکن مودی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد دوسرا کام دکھا دیا۔ جناب خالد محمود نے کہا کہ مہمان مقرر نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور و خوض اور سفارتی سطح پر اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم ہونے کے بعد ہمیں کشمیریوں اور انڈیا کا ردعمل دیکھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے، لیکن اگر انڈیا ملٹری آپشن پر کام کرتا ہے یا کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے تو ہر دو صورتوں میں ہماری یہ اخلاقی، قانونی اور ہر لحاظ سے ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کشمیریوں کی مدد کے سلسلے میں اپنا فرض پورا کریں اور ہر حد تک جائیں۔ آج تک دنیا میں کوئی بھی ملک صرف سفارتی کوششوں سے آزاد نہیں ہوا۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔
قوم ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے، ہم ایسے بھی گئے گذرے نہیں کہ محض حالات کا جائزہ ہی لیتے رہیں۔ اللہ بھی مظلوموں کی مدد کے لئے نکلنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جناب جا وید نواز نے کہا کہ جب کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہوئی تھی تو اس وقت پانچوں ملکوں نے اس کی حمایت کی تھی، لیکن آج امریکہ اس قرارداد سے مکر گیا ہے۔ او آئی سی کے اراکین سے ترکی کے سوا آپ کی کسی نے حمایت نہیں کی۔ ابوظہی کی طرف سے مودی کو بلا کر ملک کا سب سے بڑا اعزاز دیا جارہا ہے اگر ہم کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے اقوام متحدہ کو چھوڑنا ہوگا، ہماری حکومت اور بیوروکریسی بزدلی دکھا رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ یورپ سے فنڈز جمع کرکے کشمیر کے متاثرہ نوجوانوں کی مدد کرے۔ سٹیزن کونسل آف پاکستان کے چیئرمین رانا امیر احمد خان نے کہا کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں نے کشمیر میں اپنی برانچیں قائم کرکے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم سفارتی سطح پر سوئے رہے ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں کے دوران بھی سفارتی سطح پر کچھ نہیں کیا گیا۔