آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی؟
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کر لیا ہے، اپوزیشن نے قانون میں ترامیم کے لئے ساتھ نہ دیا تو آرڈی ننس کے ذریعے نیب قوانین تبدیل کر دیں گے۔اُن کا کہنا تھا کہ عام کاروباری افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا نیب اختیار ختم کر دیں گے اور نیب کی جانب سے گرفتار ملزموں کی ضمانت کا اختیار اب ٹرائل کورٹ (احتساب عدالت) کو دیا جائے گا، پہلے ایسے افراد ضمانت کے لئے متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے تھے، قوانین میں جو ترمیم کی جا رہی ہے اس کے تحت پلی بارگین کرنے والا شخص بھی سرکاری عہدے پر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ دیوانی مقدمات کے فیصلے اب ڈیڑھ سال میں ہوں گے۔سینیٹ کے سابق چیئرمین اور موجودہ رکن میاں رضا ربانی نے قومی احتساب بیورو(نیب) قوانین پر نظرثانی کے فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا ہے،انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم سیاست دانوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہے، ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں،جن سے عدالتی فوجی اور سول بیورو کریسی کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے،تمام طبقات کا خصوصی قوانین کے تحت ہی ٹرائل کرنا ہے تو ارکانِ پارلیمینٹ کا ٹرائل پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے۔وفاقی احتساب کمیشن کو تمام طبقات کے احتساب کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں، حقیقی معنوں میں احتساب تب ہی ممکن ہے جب ایک ہی قانون کے ذریعے سب کا احتساب ہو۔
زیر قانون نے نیب قوانین میں تبدیلیوں کی جو بات کی ہے،اس سے قطع نظر کہ وہ پسندیدہ ہیں یا ناپسندیدہ،یا ان ترامیم سے کسی کو اتفاق ہے یا اختلاف، کسی بھی قسم کی قانون سازی وہ نئی ہو یا پرانی، کوئی نیا قانون بنانا مقصود ہو یا کسی پرانے قانون میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جائے،یہ پارلیمینٹ کا بنیادی اختیار اور فرض ہے،ہر قسم کی قانون سازی پارلیمینٹ کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔البتہ صدر کو آرڈی ننس جاری کرنے کا جو محدود اختیار حاصل ہے وہ اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، جب قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس نہ ہو رہا ہو اور کسی قانون کے نفاذ کی فوری ضرورت محسوس کی جائے اجلاس کے دوران صدرکوئی آرڈی ننس جاری نہیں کر سکتے، پھر آرڈی ننس کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کی توسیع بھی بعض شرائط کے تابع ہوتی ہے اور صدر کا جاری کردہ آرڈی ننس لامحدود عرصے کے لئے نافذ نہیں رہ سکتا۔
یہ بہرحال پارلیمینٹ کے روبرو پیش کرنا پڑتا ہے، وزیر قانون خود بیرسٹر ہیں اور قانون کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ان کی انہی صلاحیتوں کی وجہ ہی سے سابق صدر پرویز مشرف نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے انہیں وکیل مقرر کیا تھا،اِس لئے انہیں معلوم ہے کہ مستقل قانون سازی آرڈ ننسوں کے ذریعے نہیں ہو سکتی،ویسے بھی حیرت ہے کہ اُنہیں یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی کہ اگر اپوزیشن نے تعاون نہ کیا تو آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کر لی جائے گی۔اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ بالفرض وہ ایسا کرتے ہیں تو کیا اگلے چار سال تک آرڈی ننس کے ذریعے ہی کام چلاتے رہیں گے،حالانکہ کوئی بھی آر ڈی ننس چار ماہ سے زیادہ عرصے تک نافذ نہیں رہ سکتا،اس عرصے میں اسے اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرانا پڑتا ہے، اس لئے آر ڈی ننسوں کا راستہ اختیار کرنا آئین کی منشا کے خلاف ہے اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے یہ مضحکہ خیز صورتِ حال ہو گی اور حکومت کی کارکردگی کے متعلق کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرے گی۔
نیب کے قانون میں ترامیم کے متعلق اپوزیشن کی جانب سے پہلا ردِعمل رضا ربانی کا آیا ہے،جو نہ صرف خود بھی قانون دان ہیں اور تین سال تک سینیٹ کے چیئرمین رہ چکے ہیں،انہوں نے اگر نیب قوانین میں ترامیم کو ایک ایسے زاویئے سے دیکھا ہے جس جانب فروغ نسیم کی نگاہ نہیں گئی تو بھی یہ اُن کا نقطہ نظر ہے اور ابھی مزید امور بھی زیر بحث آئیں گے،ہماری نظر سے اپوزیشن کے کسی رہنما کا بیان نہیں گزرا،جس نے کہا ہو کہ اپوزیشن قانون سازی میں تعاون نہیں کرے گی،اِس لئے حیرت اِس بات پر بھی ہے کہ وزیر قانون کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی کہ اگر اپوزیشن نے تعاون نہ کیا تو آرڈی ننس کے ذریعے قانون نافذکر لیا جائے گا،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ جس طرح کے ”غیر معمولی“ تعلقات ہیں اُن کے پیش ِ نظر حکومت کو خوف ہے کہ اپوزیشن تعاون نہیں کرے گی، اِس لئے انہوں نے تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کے بڑھک باز کلچر کو سامنے رکھ کر پہلے ہی تڑی لگا دی، حالانکہ اپوزیشن کا تعاون مطلوب ہو تو اس کے بہت سے طریقے ہیں اور بیٹھ کر بات کر کے اپوزیشن کو تعاون پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔البتہ اسے مطمئن کرنا ہو گا کہ جو قانون سازی ہو رہی ہے وہ کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھے گی نہ ہی اس قانون سے کسی کو بے جا فائدہ(یا نقصان) پہنچانا مقصود ہے۔اگر اپوزیشن کو مطمئن کر دیا جائے کہ قوانین میں مطلوبہ ترامیم ملک و قوم اور معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہوں گی اور ان ترامیم سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہی پیش نظر ہے تو پھر اپوزیشن بلاوجہ مخالفت نہیں کرے گی،لیکن اپوزیشن سے تعاون بزورِ قوت طلب نہیں کیا جا سکتا نہ اُسے ڈرا دھمکا کر ایسی قانون سازی کرائی جا سکتی ہے،جس کے کل کلاں منفی نتائج نکلیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ایک سالہ مدت میں بہت کم قانون سازی کی ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دونوں ایوانوں کے اندر حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے لتّے لینے ہی سے فرصت نہیں،حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی توجہ کا مرکز و محور قانون سازی ہے ہی نہیں، بس مخالفانہ تقریروں پر زور ہے ایسے میں حکومت نے اوّل تو کوئی زیادہ قوانین اسمبلی یا سینیٹ میں پیش ہی نہیں کئے اور اگر کئے ہیں تو ان پر غور و خوض کی نوبت کم ہی آئی ہے اب اگر حکومت کو نیب قوانین میں ترامیم مطلوب ہیں تو اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے سینئر ارکان سے رابطہ کر کے انہیں ترامیم کی برکات سے آگاہ کیا جائے اور سمجھایا جائے کہ یہ ترامیم منظور ہو جائیں گی تو اس کے یہ اور یہ فوائد ہوں گے،کاروباری ماحول بہتر ہو گا، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔اگر اپوزیشن کو کوئی تحفظات ہوں گے تو یہ دور کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہو گی اس کے بعد ترامیم کا مسودہ متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر کے وہاں اس پر غور کیا جائے اور اگر اپوزیشن بعض ترامیم پیش کرے تو وہ بھی مسودے میں شامل کرنے کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے اور بالآخر اپوزیشن کے تعاون سے ترمیمی بل پارلیمینٹ سے منظور کرایا جا سکتا ہے۔البتہ وزیر قانون نے جو راستہ اختیار کیا ہے لگتاہے وہ کسی انجانے خوف کے پیش نظر اپنایا گیا ہے،کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی پارلیمانی ورکنگ ریلیشن شپ ہے ہی نہیں،اِس لئے بظاہر جرأت کا مظاہرہ کر کے اندرونی خوف کا اظہار کر دیا گیا ہے،لیکن یہ بات بہرحال پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پارلیمینٹ کی موجودگی میں آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی محدود مدت کے لئے تو کی جا سکتی ہے،مستقل طور پریہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔