بھارت نے صدر ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کے جواب میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی 

  بھارت نے صدر ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کے جواب میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن(اظہر زمان، بیوروچیف) بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد امریکہ جنوبی ایشیاء میں ”متوازن عمل“ کی پالیسی اپنا رہا ہے۔ یہ جائزہ کانگریشنل ریسرچ سروس(سی آر ایس) کی واشنگٹن میں جاری ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ امریکی کانگریس کا یہ تحقیقی ادارہ بہت معتبر شمار ہوتا ہے۔ پندرہ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے یونین کے دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے نئی دہلی نے جس وقت کا انتخاب کیا ہے اس کا سبب صدر ٹرمپ کی طرف سے اس مسئلے پر ثالثی کرنے کی پیشکش ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں امریکہ کی مستقل سرکاری پوزیشن واضح کی گئی ہے جو یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کر کے اس علاقے کی حیثیت پر سمجھوتہ کریں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ جموں و کشمیر کو ”متنازعہ علاقہ“ قرار دیتی ہے جب کہ بھارت سمجھتا ہے کہ اس نے اس علاقے کی حیثیت میں بھی تبدیلی کی ہے وہ اس کا داخلی معاملہ ہے اور وہ عمومی طور پر اس مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ شدت نہ پکڑ لے۔ امریکی کانگریس اگرچہ 2005ء سے جاری امریکہ اور بھارت کی سٹریٹجک شراکت داری کی حمایت کرتی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے مسائل پر بھی برابر توجہ دیتی ہے۔ بھارت نے اگست میں جو کارروائیاں کیں اس پر بین الاقوامی سطح پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا کیونکہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے نتیجے میں علاقائی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس پر امریکہ اور بین الاقوامی برادری کو تشویش پیدا ہوئی کہ اس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان تنازعہ بڑھ سکتا ہے۔ دونوں ممالک کشمیر کے بحران کی وجہ سے رواں سال فروری میں جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ اب بھارت کے اگست کے اقدامات پر سنجیدہ آئینی سوالات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ جس سختی کے ساتھ کشمیر میں سکیورٹی کے نام پر جو کارروائیاں کر رہا ہے اس پر انسانی حقوق کے حوالے سے اس پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے خطے میں قیام امن کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر میں جو کارروائیاں کی ہیں اور عوام پر دباؤ اور تشدد کی پالیسی اپنائی ہے۔ آئیندہ دنوں میں سپریم کورٹ میں اہم قانونی اور آئینی سوالات پر فیصلہ متوقع ہے۔ کانگریس رپورٹ میں 22 جولائی 2019ء میں صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کی تھی اور بتایا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نے انہیں یہ درخواست کی تھی۔ ایسی درخواست بھارت کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی تھی جس پر بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ پیدا ہو گیا اور بھارتی وزیر خارجہ نے بیان جاری کیا کہ بھارتی وزیراعظم نے ایسی درخواست نہیں کی اور اپنی پالیسی واضح کی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تمام متنازعہ معاملات دو طرفہ طور پر حل کرنا چاہتا ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اسلام آباد سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت نے جو تازہ اقدامات کئے ہیں اس سے کانگریس کیلئے چند ممکنہ سوالات پیدا ہوئے ہیں جو اس طرح ہیں۔ کیا بھارت کے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات سے علاقائی استحکام پر منفی اثرات پیدا ہوں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر امریکہ کو ممکنہ عدم استحکام سے نمٹنے کیلئے کیا پالیسی اختیار کرنی ہو گی؟ کیا امریکی حکومت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم کو روکنے کیلئے سفارتی یا دوسرے اقدامات لینے ہوں گے اور امریکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات شروع کرانے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کشمیر میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ایسی صورت میں اسلام آباد کا افغان مصالحتی عمل میں تعاون کم ہو جائے گا؟۔ کیا بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی آزادی کو خطرات میں اضافہ ہورہا ہے؟ کیا امریکہ کو اس کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے؟ بھارتی حکومت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے جو قانونی فیصلے کئے ہیں ان پر بھارت کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر سخت نکتہ چینی ہوئی جنہیں نہ صرف غیر جمہوری قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ بھارت کے سیکولرازم کے دعوے کی بھی قلعی کھول دیتاہے۔  
سی آر ایس رپورٹ

مزید :

صفحہ اول -