ایڈیٹر اور کالم نگار، ایک پیج پر
ڈاکٹر اسلم ڈوگر کا تیسرا نثری مجموعہ شائع ہوا تو اُس کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد جناح ہال میں کیا گیا تھا۔ نظامت کرنے والے مشترکہ دوست سجاد انور منصوری نے تین چار مقررین کے بعد میرا نام پکارا۔ تعارفی الفاظ تھے: ”یہ صاحب مستند صحافی ہیں اور صوبہء پنجاب کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار۔ لیکن اصل وجہِ شہرت اَور ہے کہ جب بھی اسلم ڈوگر کی کوئی کتاب شائع ہو، یہ اُس پہ مضمون ضرور پڑھتے ہیں“۔ یہ سُنتے ہوئے مَیں اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ میری جان پہچان کے ایک پریس فوٹوگرافر بھاگتے ہوئے قریب آئے اور کان میں کہنے لگے: ”جواب دے کے آناں، اینھے تہاڈی بڑی بِزتی کیتی اے“۔ اُس بیچارے کو پتا نہیں تھا کہ ناظمِ تقریب کو میرا یہ تعارف کرانے کی ترغیب کسی اَور نے نہیں، خود مَیں نے دی۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔
مختلف اِن معنوں میں کہ مصنف کی زیرِ طبع کتاب کا دیباچہ لکھنے کی پیشکش میری طرف سے نہیں ہوئی۔ اِس کی دعوت جناب اسلم ڈوگر نے دی، مگر امتحانی پرچہ مشکل بنایا۔ چنانچہ اگر مَیں متن کا بے لاگ تجزیہ کروں تو بی بی سی سے پرانے تعلق کی بنا پہ پھر طعنہ ملے گا کہ سر، جاسوس کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ اِس کے برعکس، اگر ماڈرن دَور کے زیادہ ’اِن‘ اینکروں کی تکنیک اپنائی جائے تو مدلل مداحی سے کام لینا پڑے گا، حالانکہ میرے ممدوح کو علم ہے کہ دوبارہ جنم لے کر بھی اُن کے اِس دیرینہ نیازمند کے لیے ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ روایتی روزناموں میں ’ایڈیٹر کی ڈاک‘ کے صفحہ پر جلی حروف میں درج ہوتا تھا کہ ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ تو کیا پیش لفظ لکھنے والا یہ پیشگی اعلان کر سکتا ہے کہ وہ مصنف کے متن سے متفق نہیں؟ جی نہیں، یہ تو خود اپنی ہی رائے سے دستبردار ہونے والی بات ہوئی۔
یوں تو حب الوطنی کسی ایک شہر ی کی میراث نہیں ہوا کرتی، لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ موقف کی پاسداری کے عمل میں اسلم ڈوگر کوئی چھوٹا موٹا شہری نہیں۔ وہ دلائل سے لدا پھندا ایک آزمودہ کار وکیل ہے جو مقدمہ لڑتے ہوئے جزیات پہ پوری نظر رکھتا ہے اور ایسی شہادتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا ہے جو اُس کی بیان کردہ سچائی پہ دال ہوں۔ اڑھائی سو سے کچھ کم صفحات پر مشتمل اِس تحریری مواد پہ نظر ڈالتے ہی اِس نوعیت کے ان گنت حوالے آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچنے لگیں گے۔ پنڈت نہرو اور ابراہام لنکن کا باہمی موازنہ، اداکار شاہ رخ خان کی گاڑی پر ہندو بلوائیوں کے حملے، تقسیم کے وقت ضلع گورداسپور کا بھارت میں انضمام اور جموں و کشمیر کا الجھاؤ، نیز خو شونت سنگھ کی وارننگ کہ اقلیتوں کے بارے میں بھارتی سوچ ملکی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ یہ زیرِ نظر کتاب کی ابتدائی مثالیں ہیں۔
آج کے بھارت کو دیکھیں تو وزیر اعظم نریندر مودی کی متعصبانہ حکمتِ عملی اور اِس میں میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار جنوبی ایشیا کے مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اِن رویوں سے عرصہء طویل میں قیامِ امن کے امکانات پہ کتنا منفی اثر پڑے گا؟ معروضی اندازِ فکر رکھنے والے کسی بھی شخص کے نزدیک اِس سوال پہ دو آرا ء ہو ہی نہیں سکتیں۔ تو پھر فرق کیا ہے؟ فرق کو سمجھنے کے لیے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اُن دنوں کی طرف اشارہ کروں گا جب ایک منتخب پاکستانی وزیر اعظم کے تختہء دار پر لٹکائے جانے کے ڈیڑھ سال کے اندر مجھے ایک برطانوی یونیورسٹی میں داخلہ ملا تھا۔ مقامی اور غیر ملکی طلبہ کی نجی محفلوں میں ہر شام جنرل ضیا الحق کے متنازعہ طرزِ عمل کے بارے میں سوالات اٹھتے اور مَیں جنرل ضیا کی ذات کو الگ کرکے پاکستان کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا۔
ہماری محفلوں میں انڈین اسٹوڈنٹس بھی ہوا کرتے جن سے بات کرتے ہوئے بسا اوقات شدید احسا س ہوتا کہ دلائل کی مسلمہ اہمیت اپنی جگہ، لیکن پوری طرح نظر نہ آنے والی ہماری تاریخی اور تمدنی عصبیتیں بھی ایک نیم شعوری سطح پہ فکر و عمل کے پیرایوں میں گندھی ہوئی ہوتی ہیں۔ باہر رہ کر میری تربیت کا عطا کردہ یہ بچگانہ تاثر بھی بتدریج زائل ہوا کہ اگر کسی ہندو کو منہ پہ ہندو کہیں تو وہ اِس لفظ کو گالی سمجھ کے سخت مائینڈ کرے گا۔ خیر، اب سے چالیس سال پہلے ہفتہ کی رات لندن پہنچ کر پیر کو یونیورسٹی روانہ ہونے والا پاکستانی طالب علم پیڈنگٹن اسٹیشن پر ایک اَور تشویش سے دوچار ہے۔ وہ کہ کم و بیش ہر ڈبل سیٹ پہ ایک ایک میم براجمان ہے تو کیا عورت کے ساتھ بیٹھ جاؤں یا یہ بد تمیزی ہو گی۔ آواز آتی ہے ”پنجابی او؟“ ”آہو جی“۔ ’تکدے کیہہ او، بیٹھ جاؤ‘‘۔
کوٹ پتلون میں ملبوس یہ ایک ترو تازہ، صاف ستھرا انسان تھا، جس نے چھوٹتے ہی سگریٹ کا پیکٹ میری طرف بڑھایا ”آپ پتا نہیں کونسا برانڈ پیتے ہیں، مجھے تو جو بھی مل جائے چھِک لیتا ہوں“۔ میرے اندر کھُدبُد ہونے لگی کہ یار، یہ کہیں ہندو نہ ہو۔ ہندو مگر اتنا خوش شکل؟ مَیں نے ایک محتاط ڈپلومیٹک سوال کردیاا ”کیا آپ راجپوت ہیں؟“ کہنے لگے ہم سردار ہیں، آپ نے فورٹی سیون میں راولپنڈی سے نکال دیا تھا۔ ”آپاں دلی نئیں گئے، لندن آگئے‘‘۔ مَیں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ آپ کی داڑھی کہاں گئی۔ ”آپاں کرسٹان ہوگئے‘‘۔ ساتھ ہی آنکھ مار کے وضاحت کی کہ ”اصل وچ گوری نال ویاہ کر لیا اے۔ اُنج ہے چنگی“۔ پھر اِندر موہن سنگھ نے کاغذ پہ فون نمبر اور پتہ لکھ کر دیا اور کہا کہ کبھی میرے پاس کارڈف آئیے لیکن دو دن کے لیے، ایک دن میں تو ’تھکیواں‘ ہی نہیں اترتا۔
اِس سے اگلے روز میرا رُخ یونیورسٹی کالج آف نارتھ ویلز کے ہاسٹل میں ڈاکٹر منیر احمد کے کمرے کی طرف ہے جن کی قسمت میں پولیمر کیمسٹری کے شعبہ میں فیلو آف رائل سوسائٹی بننا لکھا تھا۔ راہداری میں بندہ کے ہونٹوں پہ ’میرے من کی گنگا اور تیرے من کی جمنا‘ والے گیت کے بول ہیں۔ آواز سنتے ہی ایک دروازہ کھلتا ہے اور باہر نکلتے ہیں چیتے کی آنکھوں والے دو نوجوان۔ ”ارے، آپ ہماری بھاشا جانتے ہیں کیا؟ مَیں گنگا پرشاد گرُنگ ہوں اور یہ یم بہاد ر ملا۔ ہم نیپالی گورکھے ہیں مگر پھیروج پور (فیروز پور) میں رہے جہاں ہمارے پتا انڈین آرمی میں تھے‘‘۔ اتنا کہا اور یہ وعدہ لیا کہ ”بھائی صاحب،کہیں بھی جانا ہو سنگ سنگ چلیں گے“۔ تو کیا مَیں نے اپنے کامپلیکس پر قابو پا کر اِن مَن موہنے دوستوں کو منہ پہ ہندو کہا؟ صرف ہندو ہی نہیں کہا، سارا سال اَور بھی بہت کچھ کہتا رہا۔
قارئین حیران ہوں گے کہ کتاب کے پیش لفظ میں یہ ذاتی کہانیاں کہاں سے آ گئیں۔ اِس لیے آ گئیں کہ گورڈن کالج والے پروفیسر نصراللہ ملک کے بقول برصغیر کے اندر چار بنیادی عناصر کی تقسیم میں گھپلا ہوا ہے۔ ہم میں آگ اور ہوا کا تناسب زیادہ ہے اور اُن میں پانی اور مٹی کا۔ لیکن آگ اور پانی کے کھیل میں بی بی سی ہندی کے سبھی لوگ راج نرائن بساریہ کی طرح دھنیا پئے ہوئے نہیں تھے۔ بعض سے مِل کر زندگی کی حرارت بھی محسوس ہوتی۔ جیسے ہم عمروں میں وجے رانا، پنکج سنگھ، نریش کوشک اور جسوندر سنگھ۔ پھر پنکج پچوری، رجنی کول، اچلا شرما، ممتا گپتا اور للت موہن جوشی۔ بڑوں میں کیلاش بدھوار، اومکار ناتھ سری وستاو، گوتم سچدیو اور محبت کی آنچ پہ پکا ہوا انسانی فروٹ کیک، شوتو پاوا جن کے والد اور ناقابل فراموش‘ والے دیوان سنگھ مفتون کے دوست، ڈاکٹر متھرا داس ٹمپل روڈ پر اُس احاطے کے مالک تھے جہاں بعدازاں مدتوں آئی اے رحمان اور عزیز صدیقی مرحوم کی رہائش رہی۔
ہندی سیکشن کے جز وقتی کارکنوں میں ’بکس اینڈ مور‘ کے نام سے بھارتی کتابیں امپورٹ کرنے والے ودیارتھی جی بھی تھے، جو مجھ سے پچیس سال بڑے ہوں گے۔ چہرے سے لگتا کہ کاروباری سوچ کے جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ نیوز روم میں جب کبھی مَیں جنوبی ایشیا کے چیف سب ایڈیٹر کے پاس بیٹھا خبروں کا ترجمہ کر رہا ہوتا تو وہ سِیٹ بدل کر میرے پاس آ بیٹھتے اور لکھتے لکھتے تقسیم سے پہلے کے ضلع گوجرانوالہ میں اُن کے گاؤں کا ذکر چھڑ جاتا:’’وِیر جی، آپ نے میرا سارا پریوار مار ڈالا، یہ تو بتائیں ہمارا قصور کیا تھا؟‘‘ اِس پہ مجھے نواحی تحصیل ڈسکہ میں اپنی دادی کی واحد سہیلی ہر نام کور یاد آنے لگتیں جو جاتے جاتے تسلی دے گئی تھیں کہ فکر نہ کرنا ہم آئیں گے۔ ایک سہ پہر کینٹین میں ودیارتھی کو دیکھ کر وسیم صدیقی نے مجھ پر پھبتی کسی ”ابے کِس کے ساتھ بیٹھ گئے، کٹر مہاسبھائی ہے“۔
اُس دن مَیں نے سوچا کہ گلے ملنا اور گلے کاٹنا، دونوں میں سے کونسا جذبہ انسانی جبلت کے زیادہ قریب ہے۔ یہ سوال اب سے اکیس سال پہلے لاہور کے گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی یہ تقریر سن کر بھی میرے روبرو آ کھڑا ہوا تھا کہ بہت دنوں تک جنگ ہو چکی، اب کچھ سمے صلح کو بھی ملنا چاہیے کیونکہ آپ دوست بدل سکتے ہیں، پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ تازہ کتاب میں ڈاکٹر اسلم ڈوگر نے پاکستان کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے بھارت پر جو فردِ جرم عائد کی ہے اُس کا جواب بھارتی حکمراں قیادت کے پاس تو ہے نہیں۔ تو پھر پیش لفظ لکھنے والا چاہتا کیا ہے؟ بس یہی کہ ’فرام انڈیا وِد لوو‘ کا مطالعہ کھُلے ذہن سے کریں مگر یہ خیال رہے کہ جموں و کشمیر میں روا رکھے گئے انسانیت سوز مظالم اور مذہبی اقلیتوں سے بدسلوکی کے باوجود ہر بھارتی ہندو نریندر مودی نہیں ہوا کرتا۔ بالکل اُسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت ہر پاکستانی مسلمان جنرل ضیا الحق نہیں تھا۔