صوفیہ احمد، صبا قمر ، بلال سعید اور قانون کی دفعہ 295؟آزادی اظہار کی بے لگام آزادی اور معاشرے میں پھیلتی شدت پسندی

صوفیہ احمد، صبا قمر ، بلال سعید اور قانون کی دفعہ 295؟آزادی اظہار کی بے لگام ...
صوفیہ احمد، صبا قمر ، بلال سعید اور قانون کی دفعہ 295؟آزادی اظہار کی بے لگام آزادی اور معاشرے میں پھیلتی شدت پسندی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلامی شعائر کی توہین اور ان کا مذاق اڑانا آجکل ایک فیشن بن چکا ہے،ملک بھر میں فریڈم آف سپیچ کی بظاہر خوبصورت اصطلاح  اور اس خوشنما نعرے کو بنیاد بنا کرمقدس شخصیات کو نشانہ بنانےمیں کافی تیزی دکھائی دے رہی ہے،جب احتجاج کیا جاتا ہے تو فوری آزادی اظہارِ رائے کا نعرہ لگا کر اسلے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ کسی بھی لنڈے کی لبرل موم بتی مافیا اور طلاق یافتہ آنٹیوں کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف بات کریں،دینی مدارس کے خلاف زہر اگلیں ،اسلامی شعار کا تمسخر اڑائیں اور  اپنے ایجنڈے ہم جنس پرستی اور جسم فروشی کے فروغ کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سازشیں کریں ؟

پاکستان فلم انڈسٹری کے تین بڑے نام  فائزہ فاروق المعروف صوفیہ احمد ،صبا قمر ، بلال سعید نے بھی آزادی اظہار رائے کے نام پر جو "گل" کھلائے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،گو کہ صبا قمر اور بلال سعید نے اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے معافی کی اپیل بھی کی ہے تاہم فائزہ فاروق المعروف صوفیہ احمد  کی جانب سے "شرمندگی" کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے۔اسلامی شعار کی توہین کرنے والے لبرل ازم کے یہ پیروکار اسلامی شعار اور مقدسات کی توہین کے اپنے عمل پر  "آزادی اظہار" کا لبادہ اوڑھتے ""ہیں جبکہ اگر دیکھا جائے تو یہ عمل کسی طور پر بھی آزادی اظہارِ رائے کے پیرا میٹرز پر پورا نہیں اترتا ،ایسے افراد کھلم کھلا اسلامی شعار کی توہین کے مرتکب اس لئے ہوتے ہیں کہ ایک تو انہیں "مفت میں مشہوری"مل جاتی ہے اور دوسرا اسلام کے خلاف بکواس کرنے اور مقدسات کی توہین کے باوجود ملکی قانون میں ایسے افراد کا سخت اور کڑا ترین محاسبہ کرنے کی سکت باقی نہیں ہے جس کی وجہ سے لنڈے کے یہ لبرلز جب دل چاہے اور جو منہ میں آئے کھلے عام کہہ جاتے ہیں۔

کسی بھی شخص کے قانون ہاتھ میں لینے کی کسی طور پر بھی حمایت نہیں کی جا سکتی تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ قانون خود ایسےافراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ملکی قانون میں پایا جانے والا سقم لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی شہ دیتا ہے  گو کہ  پاکستان پینل کوڈ کی دفعات دو سو پچانوے 295 اے، 295 بی اور 295سی ان تمام جرائم کا احاطہ کرتی ہیں جو عبادت گاہوں ، مقدس مقامات سے لیکر کسی بھی فرقے کی دل آزاری، قرآن کریم کی بے حرمتی یا نعوذباللہ نبی آخرالزماںﷺ کی شان میں گستاخی کے زمرے میں آتے ہوں تاہم جب قانون اپنی تمام تر تو ضیحات کے ساتھ موجود ہے تو پھر لوگ سزا اور جزا کا فیصلہ اپنے تئیں اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے عدالتی نظام میں حائل قانونی پیچیدگیوں کے باعث مقدمات کے فیصلوں میں سالہا سال کی غیر ضروری تاخیر نے معاشرے میں شدت پسندی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے ان تین نامور فنکاروں کو بھی ایسے ہی مقدمات کا سامنا ہے ۔ فائزہ فاروق المعروف صوفیہ احمد کے خلاف لاہور کے ایک مقامی تھانے میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے ، مقدس مقامات کی توہین اور علما کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست زیر سماعت ہے اور مدعی اس سلسلے میں عدالت کا دروازہ بھی کھٹ کھٹا چکا ہے۔ اسی طرح صبا قمر اور بلال سعید کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے جو کہ مسجد وزیر خان میں ایک گا نے کی عکسبندی سے متعلق تھا ۔

سوال یہ ہے کہ آزادی اظہار اپنی جگہ مگر جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان معاملات پر رائے زنی کیوں کی جاتی ہے یا لوگ اس فعل کے مرتکب کیوں ہوتے ہیں جس سے لوگوں کے مذہبی عقائد پر ضرب لگتی ہے اور نتیجتا وہ کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے؟سب سے بڑی اور اہم بات تو  عدالتی نظام میں فیصلوں میں تاخیر  ہے ۔مقدسات کی توہین کے مقدمات میں سزا کا نا ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے جسکے باعث لوگ مشتعل ہو کر خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں نتیجتا دنیا میں پاکستان کا امیج ایک انتہا پسند ملک کے طور پر ابھرتا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہئے کہ وہ مذہبی رواداری کا ثبوت دیں ، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور عدالتیں ایسے مقدمات کا فیصلہ بھی اتنی مستعدی سے کریں جیسے سیاسی مقدمات کاتا کہ معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے کے عوامل کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ہمیں ارباب اختیار اور مقدر اداروں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ آزادی اظہار کی آڑ میں اسلامی شعار کی توہین کا سلسلہ نہ رکا تو معاشرے میں فساد پیدا ہو گا۔مقتدر اداروں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ اس ملک میں اسلامی شعار کے حوالے سے حد سے زیادہ آزادی اظہارِ رائے دینا ملک کیلئے بہت نقصان دے بنتا جا رہا ہےکیونکہ اسی آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں جس نے بھی مشہور ہونا ہوتا ہے وہ اٹھ کر اسلامی شعار کی توہین کرنا شروع کردیتا ہے، مقدس شخصیات کےخلاف زبان درازی تو معمولی بات ہے ،پاکستانی اداروں کو چاہئیے کہ وہ غیر ملکی دباؤ سے نکل کر اندرون و بیرون ممالک میں بیٹھی کالی بھیڑوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر آپریشن کرے تاکہ معاشرے میں سے شدت پسندی کے ناسور سے نجات حاصل کی جا سکے۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -