تاشقند ٹاور میں بہادر سپوتوں کی یادگار ہے، یہاں شیشے کے صندوق میں قرآن کا وہ نسخہ بھی ہے جو خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے زمانے میں تحریر کیا گیا تھا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:200
خوش قسمتی سے ان دنوں لاہور سے اُزبک ائیر کی ایک پرواز براہ راست تاشقند جاتی تھی۔ ہم 15 جون 2012 کو اس فلائٹ پر روانہ ہوئے اور 2 گھنٹے بعد تاشقند کے اسلام کریموف انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اتر گئے۔ ائیر پورٹ کی لاؤنج میں داخل ہوتے ہی احسا س ہو گیا کہ اس کو قدرے بہتر حالت میں رکھا گیا،لیکن جلد ہی مجھے یہاں دم گھٹنے کا احسا س ہونے لگا۔ اس وقت تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لیکن ہمارے اس ملک میں قیام کے دوران ہی یہ عقدہ بھی حل ہو گیا۔ ازبکستان کوئی 70 برس تک روس کی آمرانہ حکومت کے تحت رہا۔ لیکن ان کی رخصتی کے بعد جب یہاں جمہوری نظام دوبارہ قائم ہوا تو آزادی کے بعد آنے والے حکمرانوں اور افسروں میں سے وہ خوئے حکمرانی نہ گئی۔ بہرحال سوویت حکمرانی سے نجات پانے کے کئی فوائد بھی تھے۔ جس میں ایک سب سے بڑی بات تو ان کی بڑھتی ہوئی شرح خواندگی تھی جو اب 100 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ پھر جدید بنیادی ڈھانچے، معاشرے کی تنظیم نو، اور ایک فعال انتظامیہ بھی معرض وجود میں آئی۔ خوبصورت یونیفارم میں ملبوس امیگریشن افسروں نے نہایت تندہی سے ہمیں ائیرپورٹ کی کارروائیوں سے فارغ کیا۔ باہر نکلے تو اسی ٹریول ایجنسی کا ایک نمائندہ ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے وہاں موجود تھا ۔
ہم گاڑی پر بیٹھ کر ہوٹل روانہ ہوگئے۔ شہر اور اس کی سڑکیں بہت صاف ستھری تھیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال بھی کی گئی تھی اور ان پر رواں دواں ٹریفک کو بھی بڑے اچھے طریقے سے کنٹرول کیا گیا تھا۔ اسی طرح شہر کی مجموعی حالت بھی انتہائی منظم تھی اور وہاں کی عمارتیں بھی اچھی پلاننگ،ڈیزائننگ اور عمدہ طریقے سے تعمیر ہوئی تھیں۔ تاشقند کا نام 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران منظر عام پر آیا۔ جب سوویت یونین نے دونوں ملکوں کے سربراہوں کو تاشقند میں مل بیٹھنے کا موقع دیا تاکہ وہ اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کر سکیں اور فوجوں کے انخلاء پر ایک با معنی سمجھوتہ ہو جائے۔پاکستا ن کی طرف سے صدر ایوب خان پہنچے اور بھارت نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ہم نے وہ ہوٹل بھی دیکھا جہاں یہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ تاشقند ازبکستان کا دار الخلافہ ہے اور یہاں کی عمارات سوویت یونین اور زمانہ جدید کے ملے جلے طرز تعمیر پر بنی ہوئی ہیں۔ یہاں بہت سارے عجائب گھر بھی ہیں جن میں امیر تیمور کا میوزیم بھی ہے جہاں تیمور خاندان کی بادشاہت کے زمانے کے آلاتِ حرب، مخطوطات، اورآثار قدیمہ کی نمائش کی گئی ہے۔ یہاں سٹیٹ میوزیم آف ہسٹری آف ازبکستان بھی ہے۔ جس میں صدیوں پرانے بدھ مت کے زمانے کے آثار قدیمہ محفوظ کئے گئے ہیں۔ تاشقند ٹاور اس شہر کا مرکزی اور مشہور مقام ہے جو دور سے بھی افق پر نظر آتا ہے۔ یہاں اپنے ملک کے لیے قربانیاں دینے بہادر سپوتوں کی یاد میں بھی ایک یادگار قائم کی گئی ہے۔ یہاں شیشے کے ایک صندوق میں ایک قرآن شریف کو بھی بڑی نفاست اور حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ان قرآن شریف کے 5 نسخوں میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کے خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے زمانے میں تحریر کیے گئے تھے اور پھر اُنھیں دنیا کے متعدد ملکوں میں بھیجا گیا تھا تاکہ وہ اس کتاب اور اسلام کی صداقت پر ایمان لے آئیں۔ یہ بڑے حروف میں ہاتھ سے لکھا گیا نسخہ ہے کیوں کہ ان دنوں پرنٹنگ پریس تو ہوتے نہیں تھے۔ ہم نے وہاں یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ عوام کی سرگرمیاں ریاست خود کنٹرول کرتی تھی اور ہر ایک کو ان کے احکام کے مطابق چلنا پڑتا تھا۔ وہاں ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا بہت جلد کھول دیا جاتا تھا اور ان کو زیادہ سے زیادہ 10بجے رات تک اپنی تمام سرگرمیاں مکمل کرنے کا حکم تھا۔ یہ گو ایک مشکل کام تھا لیکن ایک طرح سے یہ ایک اچھی بات بھی تھی کہ لوگ جلد سو جاتے تھے اور اگلی صبح بر وقت کام کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر مغربی ملکوں نے بھی اپنا رکھا ہے وہ بہت جلد رات کے کھانے سے فارغ ہو کر 9 بجے بستر میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ کاش ازبکستان جیسا کوئی انتظام وطن عزیز میں بھی ہوجائے اور ہماری جوان نسل کو بھی صبح جلد اٹھنے کے فوائد کا اندازہ ہو سکے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔