اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ!
اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی اکتالیسویں آیت میں مہاجرین صحابہ کی ایک خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں حکومت و اقتدار دے دیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے کہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں۔
جس طرح مسلمان رعایا کی عزت و آبرو اور جان مال کی حفاظت اور ان کی خوشحالی اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اسی طرح غیر مسلم اقلیت کا تحفظ اور خوشحالی بھی اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ غیر اقلیت معاشی طور پر بھی آزاد ہوتے ہیں جو پیشہ چاہیے اختیار کریں۔ اقلیتوں کو ہر طرح مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے بشرطیکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اس سے ٹھیس نہ لگتی ہو، اقلیتوں کو مسلمانوں کے ساتھ معاشرتی مساوات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
اولین دور میں ذمیوں یعنی اقلیتوں کے مال و جان کی حفاظت کے بدلے انہیں ایک معمولی سا ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جسے جزیہ کہا جاتا ہے بچے، بوڑھے اور معذور افراد اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور جو ذمی معذور یا محتاج ہوتا اسے قومی بیت المال سے وظیفہ ملتا۔
رسول اللہؐ نے آخری وقت میں ذمیوں یعنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی تھی اس لیے حضرت ابو بکر صدیق ؓ خصوصی خیال رکھتے تھے۔ عہد رسالت میں اقلیتوں کے حقوق متعین ہو چکے تھے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زمانے میں بھی ان کو وہی حقوق حاصل رہے اور نئے ذمیوں کو بھی وہی حقوق عطا کیے چنانچہ حیرہ کے عیسائیوں سے ذمہ داری کا معاہدہ کرتے ہوئے طے پایا کہ ان کی خانقا ہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ کوئی ایسامحل گرایا جائے گا جو ان کے دشمنوں سے بچاؤ کے کام آتا ہو ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہوگی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب لگانے سے روکا جائے گا۔
اقلیتوں کے لیے جزیہ کی صورت کا ٹیکس بھی نہایت آسان تھا اور بہت سے ذمی اس سے مستثنیٰ کر دیئے جاتے تھے چنانچہ حیرہ کے ساتھ ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی اقلیتی افراد سے دس دس درہم سالانہ لیا جاتا تھا اور اپاہج اور نادار ذمیوں سے مخصوص ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور ان کی کفالت کابیت المال ذمہ دارتھا۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ کسی حکومت کے عدل و انصاف اور مساوات کو جانچنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ اس حکومت کا طرز عمل غیر قوموں کے ساتھ کیسا ہے۔
حضرت علی ؓ کے دور میں ذمیوں نے شکایت کی کہ ہمارے عامل عمر و بن مسلمہ ؓ سختی کر رہے ہیں حضرت علی ؓ نے ان کو فوراً تحریری ہدایات روانہ کیں۔ ایک مرتبہ جس علاقہ میں اقلیتی رہتے تھے وہاں کی نہر میں مٹی زیادہ ہونے کی وجہ سے آبپاشی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو وہاں کے حاکم حضرت قرضی بن کعب انصاری ؓ کو حضرت علی ؓ نے جو الفاظ لکھے وہ ایک روشن مثال ہے کہ خلفائے راشدین نے اقلیتوں کی قدر فکر کیا فرمایا کہ تمہارے علاقہ کے اقلیتوں نے درخواست دی ہے کہ ان کی ایک نہر مٹی آنے کی وجہ سے بند ہوگئی ہے اس کا بسانا مسلمانوں کا فرض ہے تم اسے دیکھ کر درست کرا کے آباد کر دو میری عمر کی قسم! مجھے اس کا آبادر ہنا زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ اقلیتی لوگ ملک سے نکل جائیں یا وہ عاجز اور درماندہ ہو جائیں۔
٭٭٭