چائے کی پیالی میں طوفان

 چائے کی پیالی میں طوفان
  چائے کی پیالی میں طوفان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ’چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا‘ آپ نے کبھی نہ کبھی یہ محاورہ سنا ہی ہو گا۔ آپ اس کا مطلب اور معنی جانتے ہیں؟ نہیں جانتے تو سن لیجیے کہ ان دنوں وطنِ عزیز میں حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے صارفین کو 14 روپے فی یونٹ کا ریلیف دینے کے اعلان کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اسی کو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا کہتے ہیں۔ مسئلہ کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اس کو اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہے جیسے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک صوبائی حکومت نے اپنے صوبے کی سطح پر ایک فیصلہ کیا۔ اپنے صارفین کو بجلی کے انتہائی زیادہ بلوں سے کچھ ریلیف دلانے کے لیے بجلی کی قیمت فی یونٹ کچھ کم کی ہے، لیکن اس پر دوسرے صوبوں میں اور دوسری پارٹیوں میں اتنا واویلا کیا جا رہا ہے جیسے یہ فیصلہ وفاق نے کیا ہو اور ایک صوبے کو نوازا ہو جبکہ باقیوں کو نظر انداز کر دیا ہو۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بڑی بڑی باتیں کرنا جیسے ہماری عادت بن چکی ہے۔

میرے آج کے کالم کا موضوع دراصل یہ نہیں ہے جس پر بات شروع ہو گئی۔ میرا موضوع ایک اور طوفان ہے جو اٹھ رہا ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ سچ مچ کا طوفان بھی بن سکتا ہے۔ میرا اشارہ انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کے خلاف ہونے والے (فی الحال) خاموش احتجاج کی طرف ہے۔ پاکستان میں عام طور پر سیکورٹی مقاصد کے تحت موبائل سروس معطل کی جاتی ہے اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے، لیکن اس بار ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں پریشانی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ بے چینی اس وقت تک برقرار تھی جب تک وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و کمیونیکیشن شزہ فاطمہ کی جانب سے چند روز پہلے کی گئی ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ حکومتی سطح پر انٹرنیٹ بند نہیں کیا گیا، نہ ہی اسے سلو ڈاؤن (Slow Down) کیا گیا ہے بلکہ انٹرنیٹ پر دباؤ کی وجہ سے صارفین کا بڑی تعداد میں وی پی این (Virtual Private Network) پر منتقل ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایپس اور سروسز میں ڈاؤن لوڈنگ نہیں ہو رہی تھی تو پاکستان کی بہت زیادہ آبادی نے وی پی این پر آپریٹ کرنا شروع کیا، اس سے پورے لائیو انٹرنیٹ پر دباؤ پڑا اور انٹرنیٹ سلو ہو گیا۔ اس وضاحت کے بعد بے چینی پہلے سے مزید بڑھ گئی کہ یہ کیا جواز پیش کیا گیا ہے۔

ہم وزیر مملکت کی جانب سے پیش کردہ جواز پر بات کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے آئیے یہ جان لیں کہ انٹرنیٹ کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے۔ انٹرنیٹ ایک وسیع عالمی نیٹ ورک ہے جو دنیا بھر سے کروڑوں کمپیوٹرز، افراد اور دیگر آلات کو آپس میں منسلک کرتا اور جوڑتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا بھر میں کہیں سے بھی معلومات تک رسائی حاصل کرنے، فوری طور پر پیغامات بھیجنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آن لائن بات چیت کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ انٹرنیٹ روٹرز (Routers) اور سوئچز (Switches) کی ایک سیریز کے ذریعے نیٹ ورکس کو آپس میں جوڑ کر کام کرتا ہے۔ ایک روٹر ڈیٹا کے پیکٹ کو مختلف نیٹ ورکس (Networks) کے درمیان فارورڈ کرتا ہے جبکہ ایک سوئچ ایک ہی نیٹ ورک کے اندر آلات کو جوڑتا ہے۔ یہ کمپیوٹرز کو ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی اور ریموٹ سرورز (Servers) پر محفوظ مواد تک رسائی کے قابل بناتا ہے۔ ویب سائٹس بنیادی طور پر ڈیجیٹل دستاویزات یا ویب سرورز پر محفوظ فائلیں ہیں جن تک انٹرنیٹ کے ذریعے ویب براؤزر میں ایڈریس یو آر ایل (Uniform Resource Locator) ٹائپ کر کے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان میں عام طور پر متن، تصاویر، ویڈیوز اور انٹرایکٹو مواد (Interactive Material) شامل ہوتا ہے۔ یہ بغیر کوئی اضافی سافٹ ویئر انسٹال کیے انہیں معلومات کا اشتراک کرنے اور صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے مثالی بناتا ہے۔ ایک ویب براؤزر (Web Browser) بنیادی طور پر ایک ایپلی کیشن ہے جو صارفین کو ویب سرورز پر محفوظ دستاویزات دیکھنے کے لیے ایک انٹرفیس فراہم کرتی ہے۔ یہ وہی ہے جسے ہم ویب سائٹس کے ارد گرد نیویگیٹ (Navigate) کرنے، فائلیں ڈاؤن لوڈ کرنے اور عام طور پر انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ اس کی معروف مثالوں میں گوگل کروم، موزیلا فائر فاکس، سفاری اور ایج شامل ہیں۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (ISP) ایک کمپنی ہے جو عام طور پر فیس کے بدلے انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ دوسری طرف ایک ویب ہوسٹ، ایک کمپنی ہے جو سٹوریج کی جگہ اور خدمات فراہم کرتی ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی ذمہ دار ہے کہ ویب سائٹس آن لائن قابل رسائی ہیں۔ وی پی این استعمال کرنے کے فوائد میں آن لائن رازداری اور گمنامی میں اضافہ، سائبر خطرات جیسے ہیکرز اور بدنیتی پر مبنی سافٹ ویئر کے خلاف بہتر سکیورٹی، اور ایسے مواد تک رسائی شامل ہیں جو علاقائی پابندیوں کی وجہ سے دستیاب نہیں ہو سکتے، اسی لیے جب انٹرنیٹ کی رفتار سست ہو یا اس کی رواں فراہمی میں کوئی اور دشواری پیش آ رہی ہو تو لوگ وی پی این کا استعمال کرتے ہیں۔ 

اب جہاں اتنا پیچیدہ نیٹ ورک ہو وہاں پر کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی خرابی پیدا ہو ہی جاتی ہے تو اس کی وجہ سے انٹرنیٹ سلو ہو بھی سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کو اعتماد میں لینے میں کیا مضائقہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ وزیر مملکت نے فرمایا کہ کچھ ایپس اور سروسز میں ڈاؤن لوڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے وی پی این استعمال میں اضافے کی وجہ سے انٹرنیٹ کے سسٹم پر بوجھ بڑھا اور سلو ہو گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کچھ ایپس اور سروسز میں ڈاؤن لوڈنگ کیوں نہیں ہو رہی تھی اور انٹرنیٹ صارفین کو وی پی این کی جانب جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اب پی ٹی اے کے چیئرمین نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ مواد کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی میرین کیبل میں خرابی کی وجہ سے انٹرنیٹ سلو ہو گیا تھا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے صارفین وزیر مملکت کی بات پر اعتماد اور اعتبار کریں یا پی ٹی اے کی چیئرمین کی بات کو معتبر جانیں؟ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جیسے گزشتہ دنوں ایک فیک خبر اپ لوڈ ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف پُر تشدد واقعات پیش آئے۔

مزید :

رائے -کالم -