سیاسی آنکھ مچولی

         سیاسی آنکھ مچولی
         سیاسی آنکھ مچولی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے ایک بار ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بہت اہم بات کی تھی، یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کے خلاف بحالیء جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا جب حکومت اپوزیشن کے خلاف مزاحمت شروع کردے تو اپوزیشن کو آدھی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کی وضاحت انہوں نے یہ کی تھی کہ عام طور پر اپوزیشن حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلاتی ہے جو معمول کی بات سمجھی جاتی ہے لیکن جب حکومت اپوزیشن سے خوفزدہ ہو کر اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو مزاحمت کار بن جاتی ہے، جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔ میں آج کل کے حالات دیکھ رہا ہوں تو مجھے لگتا ہے نوابزادہ نصراللہ خان کی اس بات پر کسی حکومتی شخصیت، کسی وزیر مشیر نے توجہ نہیں دی۔ سب ایک ایسی رو میں بہہ رہے ہیں جو آج کی اپوزیشن تحریک انصاف کو خوامخواہ ایک ایسی مقبولیت دینے جا رہی ہے جس کے لئے شاید اس نے اتنی جدوجہد بھی نہیں کی۔ یہ تو معلوم نہیں کس ذہنِ رسا نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب یا اسلام آباد میں جلسہ نہیں کرنے دینا۔ لیکن یہ ضرور نظر آ رہا ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف اور عمران خان ایک ایسا ہوا بن گئے ہیں جو پورے سسٹم کو جام کر سکتا ہے۔ یہ تکنیک تو ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف یا کسی دوسرے حکمران نے بھی اختیار نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ادوار میں اپوزیشن کو بے اثر کرنے میں کامیاب رہے اور کئی کئی برس حکومت کرتے رہے۔ آج تو صرف ایک جماعت کو ہوا بنا لیا گیا ہے ہمارا ماضی تو اس بات کا گواہ ہے بڑے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنتے رہے مگر حکومت کو اتنا خوفزدہ نہ کر سکے جتنی آج نظر آ رہی ہے۔ کسی جماعت کا جلسہ ہو جائے تو اگلے دن بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں کیسے کیسے بڑے جلسے نہیں ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر بے نظیر بھٹو تک لاکھوں افراد کا جلسہ کرتی رہیں۔ حالیہ ادوار میں بھی نوازشریف اور عمران خان بڑے جلسے کرتے رہے ہیں ان سے کسی کو کامیابی نہیں ملی کامیابی ملی تو میز پر مذاکرات کے ذریعے۔ اب پچھلے دو سال سے یہ نیا ٹرینڈ متعارف کرایا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو کہیں اجتماع یا جلسہ نہیں کرنے دینا۔ اربابِ نظر کبھی بیٹھ کر غور کریں کہ اس پالیسی کا فائدہ ہوا یا نقصان۔ میرے نزدیک تو نقصان ہوا کہ نوابزادہ نصراللہ خان کی کہی ہوئی بات کے مطابق تحریک انصاف عوام میں مقبول ہوتی گئی حالانکہ  اگر اتنی شدت سے اسے دبانے کی کوشش نہ کی جاتی تو آج وہ بھی ایک عام اپوزیشن جماعت ہوتی اور لوگ اس کی سیاست سے اُکتا گئے ہوتے۔

ترنول راولپنڈی کا جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان ہوا تو ٹی وی چینلز نے سوشل میڈیا پر یہ بریکنگ نیوز چلائی، حکومت کے ساتھ پرینک ہو گیا۔ پرینک سوشل میڈیا ہی کی ایک اصطلاح ہے جس میں کوئی ٹک ٹاکر سامنے والے کو بے خبر رکھ کر کوئی ایسی وڈیوز بنواتا ہے، جس میں وہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جو حیران کر دے۔ جب مخاطب حیران ہو جاتا ہے تو وہ ٹی وی کیمرے کی طرف اشارہ کرکے بتاتا ہے۔ یہ صرف ایک مذاق تھا۔ تو کیا حکومت کے ساتھ واقعی پرینک ہوا ہے؟ کیا واقعی تحریک انصاف اور عمران خان کا مقصد یہی تھا جلسے کا اعلان کرکے ایک ہیجان پیدا کیا جائے۔ حکومت سے ایسے اقدامات کرائے جائیں جن سے لگے کہ وہ تحریک انصاف سے خوفزدہ ہے اور پھر اچانک جلسے کی منسوخی کا اعلان کر دیا جائے۔ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ میری ہمشیرہ جو راولپنڈی میں رہتی ہیں رات ایک بجے کی بس پر بیٹھ کر ملتان سے راولپنڈی جا رہی تھیں۔موٹروے پر کلرکہار کے قریب ٹریفک بند تھی۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ اس عالم میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ معلوم ہواکہ پی ٹی آئی کے جلسے کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ یہ تو لاہور اور ملتان سے آنے والا راستہ بند تھا۔ ظاہر ہے پشاور، چکوال، بنوں اور دیگر علاقوں سے آنے والے راستوں کو بھی بند کیا گیا ہوگا۔خود اسلام آباد کا یہ حال تھا کہ کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند کر دی گئیں، میٹرو بس سروس روک دی گئی، سکول میں چھٹی اور دفاتر میں بغیر اعلان کے عملے کو نہ آنے کی اطلاعت ملیں۔ اُدھر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور وڈیوز کے ذریعے یہ اعلان کرتے رہے کہ کارکن تین بجے جوابی انٹرچینج پہنچ جائیں وہ قافلے کو خود لیڈ کریں گے۔ ترنول ایک ایسی غیر آباد جگہ ہے جو اسلام آباد سے تیس کلومیٹر دور ہے۔ وہاں جلسہ ہوتا تو شاید اس میں صوابی کے جلسے جتنے لوگ بھی نہ آتے اور کوئی پہاڑبھی نہ ٹوٹتا۔ پی ٹی آئی دعوے ہی کرتی رہ جاتی کہ بہت بڑا جلسہ ہوا ہے مگر حکومت اپنے میڈیا کے زور اسے ناکام ثابت کرنے میں کامیاب رہتی۔ لیکن اس کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کرکے اس بات کو حکومت کے فیصلہ سازوں نے خود ثابت کیا، اڈیالہ میں بیٹھا ہوا شخص پورے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔

اب پی ٹی آئی نے 8ستمبر کو جلسہ کرنے کی تاریخ دے دی ہے۔ کیا یہی آنکھ مچولی 8ستمبر کو بھی کھیلی جائے گی؟ اس سے بے یقینی بڑھے گی یا کم ہوگی؟ یہ تو پی ٹی آئی کے ہاتھ میں بڑا آسان ہتھیار آ گیا ہے۔ بس جلسے کی تاریخ کا اعلان کرے اور تماشا دیکھے دنیا بھر کا میڈیا دارالحکومت میں اس قسم کی صورت حال کو بطور خاص دکھاتا ہے، کل سارا دن وائس آف امریکہ، بی بی سی، الجزیرہ اور دیگر عالمی  چینلز اسلام آباد کی کنٹینروں میں جکڑی صورت حال دکھاتے رہے۔ اس قسم کی سیاسی فضا میں استحکام کیسے آ سکتا ہے۔ اگر حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو اسے دبانے کی پالیسی اختیار کرکے آکسیجن تو فراہم نہ کرے۔ معمول کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں تو جمہوریت مضبوط ہوتی ہے کمزور نہیں۔ جماعت اسلامی نے 13دن راولپنڈی میں دھرنا دیا اور چلی گئی، اسی طرح کوئی جماعت جلسہ کرتی ہے تو اسے روکنے کے لئے ایسی فضا پیدا نہ کی جائے جیسی کل اسلام آباد کو چاروں طرف سے بند کرنے کے بعد دیکھنے میں آئی۔ یہ آنکھ مچولی اگر جاری رہی تو نوابزادہ نصراللہ خان کے کلیے کے مطابق اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگا۔ سیاسی بساط پر بہرحال بہت سوچ سمجھ کے چلنی پڑتی ہے، صرف طاقت کے استعمال میں فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -