آسیب زدہ کہانی کا آزاد کردار
کردار کہانی کے محتاج ہو تے ہیں۔کہانی جسے چاہے باہر کردے اور جسے چاہے اپنے ہمراہ لے کر ایک سے ایک موڑ طے کرتی جائے۔ایسے کردار بہت کم ہوتے ہیں کہانی جن کی محتاج ہوتی ہے۔یہ کہانی کی جان ہوتے ہیں،یہ جس طرح چاہیں، کہانی کوموڑ دیں،جہاں چاہے لے جائیں۔کہانی اور کہانی سے جڑے دوسرے کردار ان کے قدموں کے نشان چْنتے ہوئے ان کے پیچھے چلتے ہیں۔کردار اگر مضبوط ہوں تو کمزور کہانی میں بھی جان آجاتی ہے،اس کی کمزوریاں ان کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔ پنجابی صحافت کی کہانی دیکھیے تو یہ ہمیشہ سے کسی آسیب کے سائے میں چلتی رہی ہے۔کردار اس کہانی میں آتے رہے لیکن ذرا دور جا کر موڑ مڑ جاتے۔کوئی یہاں ہانپ جاتا تو کوئی وہاں تھک ہار کے رستہ بدل جاتا۔جو نہ جاتا اسے یہ کہانی خود مار دیتی،یہ اپنے کردار کھاتی رہی ہے۔کسی میں اتنی جان نہیں تھی کہ اس کا ساتھ نبھاتا،اس کے ساتھ چلتا اور اسے ایسی داستان بنا دیتا کہ زمانہ یاد رکھتا۔ پھر 80 کی دہائی میں لاہور کا رخ کرنے والا ایک عام سا نوجوان سامنے آتا ہے۔اس نے اپنی صحافت کا آغاز روزنامہ نوائے وقت سے کیا۔یہاں ایک طعنہ اس کی زندگی بدل گیا،کوئی کہہ رہا تھا کہ پنجابی زبان تنگ دامن ہے،اس میں وہ جان ہی نہیں کہ اردو کا مقابلہ کر سکے۔جان ہوتی تو اس کی بھی اپنی صحافت ہوتی،اخبار نکلتے،رسائل پڑھے جاتے۔ اس نے یہ چیلنج قبول کیا اور اسی شام نوائے وقت سے استعفیٰ دے کر اس کہانی کا کردار بن جانے کا فیصلہ کیا جو اپنے بچے،یعنی کردار خود کھاجاتی ہے۔ایسی راہ کا مسافر،جہاں کوئی چراغ نہیں جلاتاتھا۔جہاں ویرانی کی دھول اْڑ رہی تھی،گئے زمانے، صدیاں، ہزاریاں خاموشی سے اپنے فراموش ہوجانے کی منتظر تھیں۔اس نوجوان نے سرکارکوپنجابی اخبارکے لیے درخواست دی،جو لوگ اس وقت اس شعبے سے منسلک تھے انہوں نے مذاق اڑایا۔جو نام اخبار کے لیے تجویز کئے گئے وہ وارث،پنجاب،پنجابی اور پنجابی زبان تھے۔اس کا مذاق اڑایا گیا اور کہا گیا کہ یہ تمہارا بھلیکھا ہے کہ پنجابی اخبار کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔یہاں بڑے بڑے آئے اور ہاتھ ملتے ہوئے چلے گئے،تم کیا ہو؟۔اسے ان میں سے کوئی بھی نام نہ دیا گیا۔یہ ہر روز سرکاری دفتر پہنچ جاتا اور اخبار کے ڈیکلیئریش کے لیے گزارش کرتا۔آخراس کے روز سرکاری دفتر پہنچ جانے سے تنگ آکر پنجابی اخبار کے لیے ایسا نام آفرکیا گیا جو مذاق تھا۔اسے بھلیکھا نا م دیا گیا،اور انتہائی طنز کے ساتھ۔ساتھ میں کہا گیا کہ یہ تمہارا بھلیکھا ہے کہ کوئی پنجابی اخبار مسلسل جاری رکھ سکتا ہے۔اس نے جواباً شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کا بھلیکھا ضرور دور کروں گا۔اس کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ اس کی مادری زبان میں اخبارنکالنے کی اجازت مل گئی،باقی اللہ مالک۔اس نے سب سے پہلے یہ خبراس دھرتی کے سب سے بڑے نام بلھے شاہ کو سنائی۔عرض کیا کہ یہ بوجھ مجھ سے نہ اٹھ پائے گا،دست ِ شفقت رکھیے گا۔پھر وارث شاہ سے اجازت لی اور شاہ حسین کے دیوانوں میں بیٹھ کر اس اخبار کی پہلی ڈمی تیار کی۔ بلھے شاہ کی کرامت تھی یا شاہ حسین کا فیضانِ نظر بھلیکھا اخبار کا آغاز ہوا اور ایسا ہوا کہ پنجابی زبان میں لکھنے والا ہر بڑا ادیب اور شاعراس سے وبستہ ہوگیا۔یہ لوگ جنہیں معاوضے سے کوئی سرکار تھا نہ کسی اعزازیے کی پروا،دو کمروں کے دفتر میں بغیر پنکھے کے بیٹھتے،کام کرتے اور اخبارکو معیاری بنانے میں دن رات ایک کر دیتے۔بھلیکھا ہفت روزہ سے روزنامہ ہوا اور پھر پنجابی زبان کی تحریکوں کا مرکز بن گیا۔ وہ دھرتی جس کے راوی گونگے ہو چلے تھے،اسے روایت کرنے والا مل گیا۔جس کا مقدمہ کوئی نہیں لڑتا تھا اسے ایسا وکیل ملا جس نے یہاں کے لوگوں کے حقوق کے لیے ہر محاذ پر اپنی آواز بلند کی۔وہ کہانی جو آسیب زدہ مکان کی مانند تھی،جس میں کوئی کردار رہنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔اس کہانی کو نیا مکین ملا،جس نے اس کا رخ ہی بد ل ڈالا۔ایسا کردار ملا جس سے خود کہانی نے عشق کیا۔پہلی بار ایسا ہوا کہ کردار کہانی کے طے شدہ پلاٹ پر نہیں چلا بلکہ کہانی اپنے اس محبوب کردار کے پیچھے چلی۔۔پنجابی صحافت کی کہانی کے اس مضبوط کردار کا نام مدثر اقبال ہے۔ میرے بڑے بھائی،دوست اور پنجابی صحافت کو نئی زندگی دینے والے مدثر اقبال بٹ۔وہ اس کہانی کے ہیرو بھی ہیں اورمحبوب بھی۔یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ یہ کہانی انہی سے رقم ہو رہی ہے۔وہ اس کہانی سے ہیں اور یہ کہانی ان سے ہے۔دونوں لازم و ملزوم ہیں۔اس ایک کردار کو کہانی سے نکال دیکھیں تو سب خالی خالی،کچھ بھی نہیں بچتا۔پنجابی صحافت کا بجھا ہو ادیا انہوں نے اپنے خونِ جگر سے جلایا ہے۔یا پھر شاید یہ دیپ خونِ جگر ہی مانگتا تھا،جو صرف مدثر اقبال بٹ ہی دے سکتے تھے۔آج روزنامہ بھلیکھااپنی اشاعت کے 35 سال پورے کررہا ہے جبکہ مدثر اقبال بٹ اپنی زندگی کی70ویں بہار کا جشن منارہے ہیں۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مدثر اقبال بٹ کی عمر 70 نہیں بلکہ 35 سال ہے،وہ 35 سال جو انہوں نے روزنامہ بھلیکھا کی نذر کئے۔باقی کے 35 نکال دیجیے۔وہ ماشااللہ سے بھرپور جوان ہیں اور زندہ دل بھی۔اتنے زندہ دل کہ جب وہ زندگی کی 100ویں بہار دیکھ رہے ہوں گے،تب بھی 35 سال ہی کے جوان ہوں گے۔فرانسیسی ادیب والٹیئر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک محفل میں وہ اپنی دھن میں گم،ایک کونے میں بیٹھا تھا۔وہاں نائب السلطنت کی آمد ہوئی تو والٹیئر آداب بجالانے کے لئے کھڑا نہ ہوا اور ایسا ظاہر کیا جیسے اسے کسی کے آنے جانے کی کوئی پروا ہ نہیں۔معزز مہمان نے پوچھا، یہ گستاخ کون ہے؟جواب والٹیئر نے دیااور کہا کہ میں وہ شخص ہوں جس نے عزت اور مقام خود کمایا ہے،اپنے بزرگوں سے وراثت میں نہیں پایا۔مدثر اقبال بٹ بھی ایسے ہی ہیں،انہوں نے اپنا مقام خود بنایا۔میں مدثر اقبال بٹ کی زندگی کو ایسے ہی سمجھتا ہوں جیسے کاتبِ تقدیر نے لکھتے وقت اس کے ہر لمحے میں جدوجہد چھپا دی ہو۔وہ ایک لمحہ جس میں پلک جھپکی،پتھر ہو گئے والا معاملہ ہے۔جہد مسلسل، ہر لمحہ ہر ساعت محنت سے عبارت۔سفر درسفر،آزمائش در آزمائش، امتحان در امتحان۔لیکن ہر کسوٹی پر پورا اترے،نہ اترتے تو کہانی میں کہیں مر کھپ گئے ہوتے۔یہ ہار نہیں مانتے،ہاں مگر ان سے دانستاًہار جاتے ہیں جن سے انہیں محبت ہو۔اْن کی جیت میں اپنی خوشیاں تلاش کرلیتے ہیں۔اسی طرح دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونے کا جذبہ بھی ان کی شخصیت کو کمال دیتا ہے۔ایسے کم ہی ہوں گے جو دوسروں سے حسد کے بجائے اپنے مقدر پہ راضی رہنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔مدثر اقبال بٹ کو یہ خوبیاں عطا ہوئیں یا انہوں نے اپنے اندر پیدا کرلیں،ہر دو صورت میں وہ اپنی مثال خود ہیں۔ جیتے رہیے مدثر اقبال بٹ صاحب،ہمیشہ سلامت رہیے۔آپ سے پنجابی صحافت ہے اور آپ ہی اس کی پہچان ہیں۔