مثبت قوتوں کو موثر بنانے کی ضرورت
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو روکنا ہو گا۔ کسی کو اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا اصل چہرہ مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چند گمراہ لوگ فساد برپا کرتے ہیںاور اسی سے ان کی دکان چلتی ہے۔ ہمیں مل کرایک قوم کے تصور کو آگے بڑھانا ہو گا۔ پشاور کے گرجا گر پر حملہ کر کے خون سے ہولی کھیلنے والے اکثریت کے نمائندہ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز گورنر ہاﺅس لاہور میں کرسمس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور کرسچین برادری کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام مذاہب کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ ہم اقلیتوں کو خوش و خرم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقلیتیں پاکستان کی افواج ، بیوروکریسی اور پارلیمنٹ میں بھی حصہ دار ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات عالم انسانی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ حکومت نے اقلیتی بستیوں کے لئے 20 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے اور جوزف کالونی کے متاثرین کو فی کس پانچ لاکھ روپے دیئے۔ وہاں پر چرچ اور مکانات بھی تعمیر کئے گئے۔ ہم نے نوجوانوں کے لئے دو ارب روپے کی لاگت سے جس قرضہ سکیم کا آغاز کیا ہے اس میں کوئی تفریق نہیں، بلکہ میں کہوں گا کہ مسیحی، سکھ، ہندو اور پارسی نوجوان بھی آگے آئیں اور اس سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان اور ملک کی خوشحالی کے لئے کام کریں۔ دہشت گردی نے کسی ایک مذہب کو متاثر نہیں کیا، بلکہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ جب دہشت گردی اور جہالت کا کوئی مذہب نہیں تو پھر امن، علم اور خوشحالی کا کوئی مذہب کیوں ہو۔ دہشت گردوں کی نظروں میں مسجد، مندر اور چرچ کی کوئی حیثیت نہیں۔
وزیراعظم نے گورنر ہاﺅس کی کرسمس تقریب میں شرکت کرکے عیسائیوں سمیت پاکستان کی اقلیتوں کو محبت و اخوت کا پیغام دیا ہے۔ کوئی بھی مذہب کسی طرح کی منافرت کا سبق نہیں دیتا۔ اسلام تو ہے ہی سلامتی کا مذہب ۔ اسلام کے نام سے کوئی اپنے بے سہارا، غریب اورمظلوم بھائیوں کی مدد تو کر سکتا ہے، انہیں پریشان نہیں کرسکتا۔ اسلام کے نام سے کسی بھی ہم وطن کے خلاف نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کرنے یا فتنہ کھڑا کرنے سے لوگوں کو باز رکھنے کی قانونی ذمہ داری حکومت کی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ یہ کام مسلم مذہبی رہنماﺅں کا ہے، جنہیں مذہب کے ایثار و احسان اور روا داری کے اسباق قوم کو یاد دلانا ہیں اور قومی اتحاد، خوشحالی اور بھلائی میں رخنہ ڈالنے والے لایعنی اختلافات اور تعصبات کو لوگوں کے اذہان و قلوب سے نکالنے پر توجہ مبذول کرنا ہے، لیکن عام طور دیکھا یہ گیا ہے کہ اپنے اپنے فرقوں کے لوگوں کے درمیان بعض نام نہاد مذہبی رہنما دوسروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں، الزامات اور جھوٹی افواہوں کے ذریعے نفرت کا کاروبار چمکاتے ہیں اور بقول وزیراعظم اسی سے ان کی دکان چلتی ہے۔ باشعور اور متوازن ذہن عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مساجد میں جائیں اور انہیں غلط اور اشتعال انگیز رویے سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اب تک دنیا کے با شعور لوگ واقف ہو چکے ہیں۔ غیر مسلموں کی بڑی تعداد بھی اسلامی اصولوں کی حقانیت کی معترف ہے، پاکستان کا اصل اور خوبصورت چہرہ بھی اسی صورت میں دنیا کے سامنے آ سکتا ہے جب ہم دہشت گرد اور فتنہ پرور لوگوں پر کنٹرول حاصل کر کے ہر طرح کے مذہب اور فرقے کی عبادت گاہوں اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنا دیں گے۔ اس وقت ہمارا دشمن ہمارے اندر خانہ جنگی شروع کرانے کے لئے ایک طرف مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کر رہا ہے اور دوسری طرف عیسائیوں کے گرجا گھروں اور آبادیوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے پاکستانی قوم کے تنگ نظر اور دہشت گرد ہونے کا تاثر عام کر رہا ہے۔جو لوگ پاکستان کو اقوام عالم میں بدنام کرنے کے لئے سرگرم ہیں ، جب تک پاکستان میں ان کے تمام ٹھکانے تباہ نہیں کر دیئے جاتے اور مختلف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی صفوں میں ان انسانیت دشمن لوگوں کی حمایت ختم نہیں کر دی جاتی اس وقت تک ان کو اپنے ناپاک عزائم سے باز رکھنا ممکن نہیں۔ ایک ملک میں ایک آئین کے تحت زندگی بسر کرنے والے تمام پاکستانی شہری بلا شبہ ایک قوم ہیں جن کے غم، مسائل اور دُکھ سکھ سانجھے ہیں۔ ہم نے مل کر ہی سب کچھ برداشت کرنا ہے۔ قومی تعمیر و ترقی کے لئے سب کو یکساں مواقع میسر آئیں، حکمران کلاس قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بند کرے، ادنی و اعلیٰ سب خود کو قانون اور آئین کی پابندی کے لئے تیار کریں تو یہی راستہ گمراہ لوگوں کو فساد سے روکے گا، اِسی سے اقلیتیں اور دوسرے کمزور طبقے اس ملک میں اپنی عزت نفس کو محفوظ سمجھتے ہوئے پاکستان سے محبت کرسکیں گے اور پاکستانی ہونے پر فخر کریں گے۔ حکومت اور حکمران طبقے سے کہیں بڑھ کر ملک کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں، کسی طرف سے بھی ان پر زیادتی نہ ہونے دیں۔ مسلم سکالرز اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اقلیتوں سے بہترین اخلاق سے پیش آنے کی تبلیغ کریں اور انہیں نبی پاکﷺ کے اقلیتوں سے حسن سلوک کی مثال سامنے رکھنے کی تلقین کریں۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کو بھی اس معاملے میں ہر وقت چوکس اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی مسلسل موثر انداز میں فیچرز اور ڈاکومنڑیز کے ذریعے اس سلسلے میں عوامی تربیت اور شعور میں اضافے کے لئے مسلسل کام کر سکتا ہے۔
وزیراعظم نے درست کہا کہ دہشت گردی کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان میں ہر کسی کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دہشت گردوں اور اپنی دکان چمکانے والوں نے پورے پاکستان کو تنگ نظر اور دہشت گرد ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رکھا ہے، بلکہ یہ لوگ ہمارے جن دشمنوں کے آلہ کار ہیں وہ ان کی تمام کارروائیوں کو عالمی میڈیا میں اچھال کر ہمیں بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ یہ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت اور عداوت کو فروغ دینے والے، تشدد کا پرچار کرنے والے اور سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے والوں کا ہر سطح پر ہر کہیں مقابلہ کریں ۔ ان کی حوصلہ شکنی کریں اور ان کی آواز کو دبا کر ہم وطنوں سے محبت کرنے اور اختلافات ،مذاکرات اور قانونی کارروائی کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی جائے نہ کہ ہر کوئی ہر کہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا پھرے اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتا پھرے۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، حکمران طبقے سے ہو یا کمزور عوامی طبقات سے کچھ لوگ بھی کھڑے ہو کر اُن کی غلط کاریوں پر روک ٹوک کرنے والے ہر جگہ موجود ہوں تو پورے ملک کے معاملات سیدھے ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی اکثریت کی امن اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ گنے چنے شر پسندوں اور قانون شکنوں کی بالا دستی اور دھونس کو ختم کیا جا سکتا ہے اور معاشرے کا اصل روپ سامنے آ سکتا ہے، لیکن اس میں آخر کار ہر طرح کے اختیارات، وسائل اور طاقت رکھنے والی حکومتوں ہی کا کردار ہے، جو سرکاری مشینری، قانون نافذ کرنے اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں کو موثر بنا کر اور ہر طرح کی سیاسی مداخلت ختم کر کے قوم کواپنا اصل چہرہ سامنے لانے کا موقع بخش سکتی ہیں۔ دھن دھونس اور دھاندلی کا راج حکومتوں کے ختم کرنے ہی سے ختم ہو سکتا ہے۔ یہ ختم ہوجائے تو پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ پاکستانی قوم کس قدر امن پسند ، روادار اور باشعور ہے۔ جب ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی قانون اور آئین کے محافظ ہی قائم نہیں ہونے دیں گے تو پھر معقول اور باشعور لوگ اپنا موثر کردار ادا کرنے کے قابل کس طرح ہو سکیں گے؟ ایسے حالات میں کون ہو گا جو حکومتی طاقت کے سامنے قانون اور آئین کی بالادستی کے لئے کھڑا ہو سکے گا؟ اگر لوگوں کو انصاف ملنے لگے، قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بند ہونے سے معیشت سنبھلنے لگے، روزگار کے مواقع بڑھیں، آسمان سے باتیں کرتی اشیائے ضرور ت کی قیمتیں نیچے آ سکیں، غریب سے غریب گھرانوںکو بھی اپنے روٹی کپڑے اور رہائش کی فکر نہ رہے تو پھر کون ہو گا، جو پاکستان کے اصل چہرے کو سامنے آنے سے روک سکے گا؟ پھر کسے ضرورت ہو گی کہ ملک دشمن لوگوں کے بھڑکانے اور اکسانے سے انتہاءپسندی یا تشدد پسندی، عسکریت یا دہشت گردی کی سوچتا پھرے۔
دراصل ذمہ داری ہر سطح پر ہر کسی کی ہے، جس کے جتنی استطاعت اور طاقت ہے ملک و قوم کے معاملات کے سدھار کی اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی ہے۔ ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ ہمیں انتہاءپسندی اور لاقانونیت کی فضا سے باہر آنا چاہئے ۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں ہی اپنا کام نہ کررہی ہوں، تو پھر کون اور کس طرح ایسی مایوس کن صورت حال سے باہر آ سکتا ہے؟ وزیراعظم کو بھی ان تمام چیزوں کااحساس ہے، لیکن جس قدر قوم نے انہیں ذمہ داری سونپی ہے اس کے مطابق ان کی طرف سے کام ابھی تک نہیں کیا گیا۔ ملکی امن و امان اور معیشت کی بحالی کے معاملات میں ان کے بہت سے اقدامات صحیح سمت میں آگے بڑھنے میں معاون ہو رہے ہیں، لیکن بنیادی ضرورت قانون اور آئین کی بالادستی، قانون کا بالادست طبقوں پر اطلاق، قانون نافذ کرنے اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں کا عوام دوست اور ہر لحاظ سے موثر اور درست کام ہے، جس کے بغیر معاشرے کی مثبت قوتوں کے بیدار ہونے اور شیطانی قوتوں کے دبائے جانے کا کوئی امکان قطعی نہیں ہے۔ مثبت قوتوں کے طاقتور ہوئے بغیر ملک کا اصل چہرہ نہ سامنے آ سکتا ہے نہ نکھر کر دنیا کو متاثر کر سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی فراہمی اور قانون و آئین کی بالا دستی ہی کسی قوم کے روشن و تاباں چہرے کی دلیل ہے۔ یہ کام کس نے کرنا ہے اس سلسلے میں بھی کسی سطح پر کوئی اختلاف نہیں۔ ہر طرح کے انتشار و افتراق کے باوجود قوم اس سلسلے میں ذمہ داروں کا منہ دیکھ رہی ہے اور منتظر ہے!