سانحہء پشاور، میڈیا اور قومی ادارے

سانحہء پشاور، میڈیا اور قومی ادارے
سانحہء پشاور، میڈیا اور قومی ادارے

  

سانحہء پشاور پر افسوس اور مذمت کا عمل جاری ہے۔ بِن کھلے غنچے منوں مٹی تلے دفن کر دیئے گئے ہیں۔ ہماری قوم ہے کہ ایک طرف راکھ کے ڈھیر پر بیٹھی غم و اندوہ اور بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کا ایک آتش فشاں ہے جو تقریباً پچاس ہزار انسانی جانوں کے نذرانے کے باوجود ابھی تک سلگتا جا رہا ہے اور جس کے سرد ہونے کے ابھی بھی حتمی آثار نظر نہیں آ رہے۔۔۔ہر انسانی معاشرے میں ایسے بحران کے موقع پر ذرائع ابلاغ کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بالخصوص ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں جا پہنچتی ہے۔ ایسے عالم میں نفسیاتی طور پر انسان کے اندر جاننے کا حق بہت حد تک بڑھ جاتا ہے تو دوسری طرف میڈیا بھی اس انسانی مجبوری کا دانستہ یا نادانستہ طور پر خوب اچھی طرح استعمال یا استحصال کرتا ہے۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ معاشرے میں تو میڈیا کا یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایسی جذباتی فضا میں جہاں افواہیں اور سنی سنائی باتیں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں، وہاں سب سے پہلے سچ اور حقیقت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ آنکھیں وہی دیکھنا چاہتی اور کان وہی سننا چاہتے ہیں، جو ہمارے ذہن و دل انہیں دکھانا اور سنانا چاہتے ہیں۔ یہ بیانیہ کیا ہے؟انسان کی اپنی سوچی سمجھی خواہشوں کا تانا بانا، جو ایک وقت میں کچھ اور ، اور دوسرے لمحے میں کچھ اور ہو سکتا ہے۔ خواہشوں بھری سوچوں کے بارے میں فیض کیا خوب لکھ گئے:

توُ جو مِل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے

یُوں نہ تھا، مَیں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ بھی تو بدلتے ہوئے (Narrative) کا بَرمِلا اعتراف اور اظہار ہے۔۔۔سہیل وڑائچ ’’میرے مطابق‘‘ میں اپنا بیانیہ بیان کررہے تھے کہ دوسرے بیانیہ کو بھی زندہ اور موجود رہنا چاہیے ،ورنہ اصلاح اور بہتری کا عمل رُک جاتا ہے۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ہم ،عوام سے ان کا بیانیہ چھیننے پربرسوں سے عمل پیرا ہیں، مثلاً سانحہ ء پشاور کے بعد ایک Narrative دوسرے Narrative پر مکمل طور پر غالب آ گیا ہے۔ ہم ایسی جذباتی فضا میں دوسرا بیانیہ سننے اور اس پر غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں، پھر اصلاحِ احوال کے لئے بھی سرگرداں ہیں:

کیسے ممکن ہے حالات کی گُتھی سُلجھے

یار لوگوں نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے

سیانے کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا نقطہ ء آغاز انتہا پسند سوچ سے ہوتا ہے۔ صرف اپنی ہی آواز کو ہم اپنے کان میں رکھتے ہیں۔ سانحہ ء پشاور جیسی جذباتی فضا میں ہم دور تک گہرے انداز میں سوچنے سے عاری ہو جاتے ہیں۔ غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں اصل حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ بالکل بجا ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔حکومت نے اچھا کیا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے دشمنوں اور دہشت گردوں پر قومی یکجہتی اور وحدت کا تاثر قائم کیا۔ لیکن افسوس، اس موقع پر بھی حساس ترین قومی ادارے اور جمہوری ادارے یعنی پارلیمنٹ ایک صفحے پر اکٹھے نظر نہ آ سکے۔ اس وقت بھی ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز ہماری رائے عامہ کی تربیت کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان ٹاک شوز میں رائے عامہ کے ترجمان کے طور پر لائے جانے والے ماہرین ان دو تین نمایاں موقف یا Narrative کے سرگرم حامی نظر آتے ہیں۔ اس سرگرم حمایت میں اکثر سچائی اور حقیقت کی ہلاکت ہوتی رہتی ہے، مثلاً اکثر ٹاک شوز میں دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ایک این جی او کا نمائندہ ، ایک حساس ترین قومی ادارے یعنی فوج کا خود ساختہ ترجمان یا نمائندہ یا ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ اب تو ٹاک شوز کا یہ پسندیدہ کمبی نیشن یا فارمولا بن چکا ہے۔ اس سے سب کی رائے تو ناظرین کے سامنے آ جاتی ہے، لیکن ہر کوئی اپنی رائے پر حد سے بڑھ کر اصرار بھی پوری شدت سے کررہا ہوتا ہے، حالانکہ ٹاک شوز ہوں یا حکومتی اور ریاستی معاملات ، تمام مسائل زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم پیدا کرنے اور ایک دوسرے کو راستہ دینے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے ڈیڈ لاک تو پیدا ہو سکتا ہے، مسائل ہرگز حل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے اکثر ٹی وی چینلوں پر سب ڈیڈ لاک پیدا کرکے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو جاتے ہیں۔

میڈیا بہت بڑا کاروبار بن جانے اور ریٹنگ بڑھانے کا چکر سچائی اور حقائق کو لے ڈوبا ہے۔ سیاسی انتشار اور مسلکی تقسیم نے پہلے ہی بیڑہ غرق کررکھا ہے۔ سانحہء پشاور سے قبل اگر سیاسی انتشار، جو بہت سی حدیں عبور کرتا نظر آ رہا تھا، اس کو یکدم بریک لگی ہے جو یقیناًملک و قوم کے لئے نیک فال ثابت ہوگا، لیکن میڈیا کے ذریعے دوسرے Narrative کاگلا دبانے کی کوشش کہیں مزید جان لیوا ثابت نہ ہو جائے۔ سیاستدانوں نے وقتی طور پر جو یکجہتی ظاہر کی ہے، خدشہ ہے کہ ہم جنون کی حد تک پہنچی ہوئی مسلکی تقسیم کی وجہ سے اپنے پارہ پارہ تقسیم ہونے کی روایت برقرار رکھیں گے۔ اس سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے ٹی وی چینل ان مختلف مسلکی گروہوں کے پریشر یا اپنی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ان کے ایک دوسرے کے خلاف غیر مہذب الفاظ ،حتیٰ کہ گالیاں تک بغیر سنسر کئے نشر کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو ایسے نازک موقع پر بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

سازشی مفروضوں کا چلن معاشرے میں رواج پکڑ جائے تو بہت نقصان دہ ہوتا ہے، مثلاً اگر کراچی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر ایک قومی اردو معاصر میں اپنے کالم میں یہ لکھ دیں کہ پنجاب کا Narrativeمختلف ہے اور ان کا اشارہ انتہا پسندی کے رجحان کی طرف ہو تو یہ تعصب کہلائے گا یا سازشی مفروضہ ۔۔۔بہرحال یہ فاضل کالم نگار اور اخبار دونوں کی غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ روش تو ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک پروفیسر ڈاکٹر سانحہء پشاور کے بعد جمعتہ المبارک کی نماز سے قبل کالونی مسجد کے خطیب صاحب پر الزام لگا دیں کہ انہوں نے دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہیں کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیں کہ مَیں نماز میں دوڑ کر پہنچا تھا، میں نے تقریر نہیں سنی۔ یہ دونوں متضاد باتیں وہ ایک ہی سانس میں کہتے جا رہے تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر کے اس بیانیہ کو محض لبرل اور روشن خیال نظر آنے کا شوق کہا جائے، سازشی مفروضہ یا غیر ذمہ دارانہ تجاہلِ عارفانہ، لیکن وہ نتائج اور اثرات سے بے پرواہ بیان داغتے چلے جا رہے تھے۔ اسی طرح ایک محفل میں ایک خود ساختہ ترجمان کو اس بات پر اصرار تھا کہ عمران خان نے فوج کے حکم پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاس بیٹھے ایک اخبار کے معزز اور ذمہ دار ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف نے اپنا موبائل کھول کر عمران خان کا وہ پیغام دکھا دیا، جس میں انہوں نے 17دسمبر کو اسلام آباد سے پشاور جانے سے قبل ہی دھرنا ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا اور اس کراس میڈیا گروپ نے اسی وقت اپنے ٹی وی چینل پر یہ بریکنگ نیوز چلا بھی دی تھی۔ اسی طرح ایک اور ٹی وی چینل پر ایک کہنہ مشق جید صحافی بھی سانحہء پشاور کے فوراً بعد سب کوششیں خاکی سرکار کے کھاتے میں ڈالتے جا رہے تھے۔ ان کی باتوں سے تو یوں لگتا تھا کہ یہ پالیسی انکل سام نے خود زور دے کر بنوائی ہے اور ہم سب نے مل کر اس پر مہر لگائی ہے۔ بہرحال، اسباب و محرکات اور پس پردہ جو کچھ بھی ہو، ہماری تو یہی دعا ہے کہ :

میرے وطن تیرے دامانِ تار تار کی خیر

اب تو ٹی وی چینلوں پر ایک پبلک سروس پیغام میں بچے بھی کہہ رہے ہیں:بس کر دو ، بس ، بس کر دو بس

یہ معصوم بچے بس کرنے کی اپیل کیسے کررہے ہیں۔ ان کی بے نوائی کو ایک مثبت اور نتیجہ خیز نوا ہمارا ذمہ دار میڈیا اور اس سے پہلے ہمارے حکمران، قومی ادارے اور سیاستدان ہی دے سکتے ہیں۔علومِ ابلاغیات میں ایک نظریہء تقلیدی، یعنی Persuasion کی تھیوری بھی پڑھائی جاتی ہے۔ امریکی فوج جب ویت نام سے شکست کھانے کے بعد اپنا مورال کافی ڈاؤن کر چکی تھی تو ان کے ماہرین ابلاغیات نے ان کا مورال دوبارہ بحال اور ہائی کرنے کے لئے ایک امید اور خوشخبری کے پیغام کو وقفے وقفے سے دہرا کر انہیں اعصابی اور نفسیاتی طور پر دوبارہ قائم دائم کر دیا تھا۔ ان کے رویے، سوچنے کے انداز اور عمل و حرکت میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔دشمن کے خلاف نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈہ بھی اسی تھیوری کے بطن سے پھوٹے تھے۔ ہم آرمی پبلک سکول پشاور کے زندہ بچ جانے والے ان طلبہ و طالبات کو ایک سکتے اور صدمے کی کیفیت سے اسی تھیوری کو عملی شکل دے کر نکال سکتے ہیں۔ سماجی علوم کی اس وسیع اور بہت موثر دنیا سے ہم نفسیات، عمرانیات اور فلسفے کے پڑھے لکھے تجربہ کار ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس جذباتی فضا میں ہمیں ان دہشت گردوں اور تجزیہ کاروں کی خلوصِ دل کے ساتھ اصلاح کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، جن کی برین واشنگ ان سماجی علوم کے اعلیٰ ڈگری یافتہ اور تجربہ کا رماہرین نے تو نہیں کی۔ صرف ایک دین ایمان کے پہلے سے موجود جذبات کا استحصال کرکے ان کو یہ انتہا پسندانہ قدم اٹھانے پر تیار کر لیا جاتا ہے۔ ٹی وی کے ایک معروف اینکر پرسن نے خود یہ تجزیہ کرکے انتہا پسندوں کی موثر ابلاغی حکمتِ عملی کا اعتراف کرلیا تھا۔ آخر حکومت اپنے تمام تر وسائل استعمال کرکے پورے خلوصِ دل کے ساتھ ایسے موثر اور نتیجہ خیز بورڈ یا تھنک ٹینک کیوں قائم نہیں کرسکتی، جن کی پرفارمنس کو مانیٹر کرکے زیادہ بہتراور موثر بنایا جا سکتاہے :

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزہ تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

مزید :

کالم -