سیاسی کارکنوں کے نام
دنیا کی کوئی بھی تحریک ہو یہ کارکنوں کی مرہون منت ہوتی ہے ہر طبقے میں ہر شعبہ زندگی میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کچھ کرنے، کچھ بدلنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں اپنی ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال کر اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں اور اپنی دانست میں جس پارٹی یا جماعت کو صحیح سمجھتے ہیں اس کے لئے تن من دھن ایک کردیتے ہیں میں ایسے لوگوں کو ضمیر کے قیدی کہتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں کہ یہ اپنا آج قوم کے کل کے لئے قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن کیا کبھی ان کے خواب پورے ہوئے؟ ان کی قربانیاں رنگ لائیں؟ کارکن خواہ جیالا ہو، متوالہ ہو، جنونی ہو، انقلابی ہو، اصلاحی ہو، کامریڈ ہو یا کھلاڑی ہمیشہ راہزنی کا شکار ہوتا رہا ہے۔ روسی انقلاب میں ہزار ہا کارکنان کی قربانیوں کے مزے کمیونسٹ پارٹی میں چھپے راہزنوں نے اٹھائے۔ انقلاب فرانس کے بعد نئی اشرافیہ بن گئی اور مقصد کہیں کھوگیا۔ پاکستانی حوالے سے بات کی جائے تو تحریک پاکستان کے کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر یونینسٹ پارٹی سے آئے ہوئے لوٹوں اور جاگیرداروں نے اُٹھایا اور عام کارکن راہزنی کا شکار ہوا۔ مختلف اوقات میں ملک میں تبدیلی کے لئے بڑی بڑی تحریکیں چلیں جو کارکنوں کی قربانیوں کی مرہون منت تھیں۔
ایوب آمریت، ضیاء آمریت کے خلاف چلنے والی تحریکیں ہوں یا قومی اتحاد کی نظام مصطفیٰ کی تحریک ان میں کارکن پابند سلاسل ہوئے، بدترین تشدد کا شکار ہوئے کچھ نے خود سوزی کی اور کچھ لقمہ اجل بن گئے لیکن ہر تحریک کے بعد کیا ہوا؟ کیا کبھی کوئی کارکن اوپر آیا؟ یا اسے آنے دیا گیا؟ ہر دفعہ بااثر اشرافیہ نے ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹی تبدیل کی اور ہر دور میں حکمرانی کے مزے لوٹے ۔۔۔ لہٰذا میری کارکنوں سے گزارش ہے کہ تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے موجودہ سیاسی شورش کے بعد بھی آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا سوائے پچھتاوے کے کہ کاش! میں نے گلو بٹ بن کر توڑ پھوڑ نہ کی ہوتی، کاش! میں نے شہر بند کرتے وقت ایمبولینس کو راستہ دے دیا ہوتا، کاش! میں نے جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچایا ہوتا۔
کیوں نہ بعد میں پچھتانے کی بجائے اب یہی سوچ لیا جائے کیونکہ اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ اگر آپ طبقاتی نظام بدلنا چاہتے ہیں Status Quo توڑنا چاہتے ہیں۔ معاشرتی ناہمواری اور غیر منصفانہ رویوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ان سیاسی جماعتوں کی بجائے اپنی توانائیاں علم کی روشنی پھیلانے پر خرچ کریں۔ اس سے لوگوں میں شعور اور آگہی آئے گی اور لوگ ہر ڈگڈگی بجانے والے کی ڈگڈگی پر تماشہ نہیں بنیں گے۔ ایک پڑھا لکھا بچہ ایک خاندان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کا باعث ہوگا، اس طرح بتدریج سوچ بدلے گی اور پھر یہی افراد معاشرے کے بدلنے کا باعث ہوں گے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دراصل صحیح تعلیم ہی Agent to Change ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء اپنی وراثت میں کوٹھیاں، کاریں، بنگلے، خزانے، چھوڑنے کی بجائے علم چھوڑ کر جاتے، آج بھی یہی علم بہترین سرمایہ کاری ہے۔ اس لئے ابن الوقت لوگوں کی خواہشات کا ایندھن بننے کی بجائے تمام سیاسی کارکنوں کو اپنی توانائیاں اس طرف خرچ کرنی چاہئیں۔