ڈاکٹر طاہر القادری کی واپسی۔۔۔؟
ڈاکٹر طاہر القادری ایک لمبی چھٹی کے بعد ملک واپس آگئے ہیں۔ یا وہ اپنے ملک ( کینیڈا ) سے چھٹی پر پاکستان آگئے ہیں۔ وہ اب کینیڈا ور پاکستان دونوں ممالک کے شہری ہیں۔ اس لئے وہ دونوں جگہ رہنے کا بہرحال حق رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آئین پاکستان کے تحت پاکستان میں کوئی انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ لیکن شائد یہ پابندی ان پر کینیڈا میں نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ہیں، لیکن شائد انہیں کینیڈا کا نظام نہ تو خلاف اسلام لگتا ہے۔ نہ ہی وہ اسے فرسودہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہیں وہاں انقلاب کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہو تی۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی زندگی بھی عجیب بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ وہ دو دفعہ انقلاب لاتے لاتے رہ گئے ہیں۔ ان کے کامیاب دھرنوں کے باوجود ان کی جماعت ایک بھی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وہ تو کسی ایک شہر میں کوئی چیئرمین کی سیٹ بھی نہیں جیت سکے۔ شائد اسی لئے وہ اس انتخابی نظام کو فرسودہ کہتے ہیں۔ اس میں انہیں اپنی جیت نظر نہیں آتی۔ وہ سو لو فلائٹ کے عادی ہیں۔ اسی لئے ان کی جماعت میں کبھی ان کے علاوہ کوئی نہیں رہا۔ وہ جلد ہی حلیفوں کو حریفوں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ ان کے دھرنوں کے ساتھی چودھری برادران بھی ان سے دور ہو چکے ہیں۔ عمران خان بھی انہیں لینے ائیر پورٹ پر نہیں تھے۔ وہ کل بھی سیاسی طور پر تنہا تھے اور آج بھی سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ یہ ان کی خامی ہے یا خوبی ۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ تا ہم ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید بہت آسان ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری جب بھی پاکستان واپس آتے ہیں۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا ء کے خون کی بات ضرور کرتے ہیں۔ ان بیچارے شہدا کی بات بھی تب ہی ہوتی ہے۔ورنہ اب ملک میں اتنا کچھ اچھا ہو رہا ہے کہ یہ شہدا کسی کو یاد بھی نہیں۔ منظر ہی بدل گیا ہے۔ ایسے میں اب کون ان شہدا کو یاد کرے۔ وہ کوئی آرمی پبلک سکول کے شہدا تھوڑے تھے کہ پورا ملک ان کی برسی منا تا۔ شاید ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت نے خود بھی ان کی برسی بس رسمی طور ہی منائی۔ وہ بھی شائد ڈرتے ہیں ۔ کہ یہ خون نا حق ہے ۔ کہیں زندہ ہی نہ ہو جائے وہ خود بھی کہیں نہ کہیں اس کے ذمہ دار ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری تنقید کرتے ہیں کہ حکمرانوں کا دامن صاف ہے تو وہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کیوں نہیں بناتے؟ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ ہے کہ ایک ایسی جے آئی ٹی ہونی چاہئے، جس میں آئی ایس آئی کا نمائندہ ہو، جس میں آئی بی کا نمائندہ ہو اور پولیس کے نمائندے پنجاب سے باہر کے ہوں جبکہ حکومت نے ان کے اس مطالبے کو پورا نہیں کیا۔
یک دم دھرنا ختم کرنے پر ڈاکٹر طاہر القادری پر سیاسی حلقوں میں داستان ہے کہ انہوں نے ایک لمبی رقم لے کر دھرنا ختم کیا۔ اسی لئے وہ اب زیادہ عرصہ باہر رہتے ہیں۔ تا کہ اس رقم اور معاہدہ کو مکمل کیا جا سکے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت سے پیسے لے کر ڈیل کر لی ہویا شہداء کے ورثاء نے کوئی پیسے لے لئے ہوں،ایسی کوئی بات ہوتی تو اب تک منظر عام پر آچکی ہوتی ۔یہ بات بھی میرے ذاتی علم میں ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والے خاندانوں کی کفالت کررہے ہیں، کچھ کو گھر بھی تعمیر کر کے دئیے اور انقلاب مارچ کے دوران بیروزگار ہونے والوں کو نوکریاں بھی دیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جتنے بھی زخمی ہوئے تھے ان کا علاج بھی ڈاکٹر طاہر القادری نے کروایا اور مختلف مقدمات میں گرفتار کر لئے جانے والے سینکڑوں کارکنوں کی رہائی اور ضمانتوں کے اخراجات بھی ڈاکٹر طاہر القادری نے برداشت کئے اور وکلاء کی فیسیں بھی انہوں نے دیں،بہرحال کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اپنے کارکنوں کی نگہداشت اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنا ایک صحت مند روایت ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ دھرنے میں لوگوں کو کرائے پر لائے۔ لوگوں کو روزانہ اجرت دی جاتی تھی۔ اس ضمن میں عدلیہ میں کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن پھر ان کو سیاسی سسٹنٹ بھی کہا جا تا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے بیرونی فنڈز استعمال کرتے ہیں۔دھرنوں میں بھی باہر کا پیسہ تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ لینے اور فنڈز خوردبرد کرنے کے الزامات میں ابھی تک کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی ہے۔ ان تحقیقات کا دھرنوں میں بہت شور تھا لیکن دھرنوں کے ختم ہوتے ہی یہ تحقیقات بھی تھم گئی ہیں۔ حکومت نے بہت سے الزمات لگائے، لیکن ایف آئی اے سمیت صوبائی ادارے منہاج القرآن کے اکاؤنٹس اور آمدن کے ذرائع میں کوئی بے ضابطگی سامنے نہیں لا سکے ہیں۔ اور ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں غیر ملکی فنڈنگ لینے والے اداروں کی جو فہرست پیش ہوئی ہے اس میں بھی ادارہ منہاج القرآن یا کسی ذیلی تنظیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان عوامی تحریک کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر فعال بنانے کا فیصلہ بھی کر لیاہے۔ وہ عوامی تحریک کو ری آرگنائز کررہے ہیں اور عوامی تحریک نے بلدیاتی الیکشن میں بھی حصہ لیا ہے اور ان کا ایک امیدوار خواجہ عامر فرید کوریجہ این اے 154 میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار صدیق بلوچ اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کا مقابلہ کررہا ہے،لیکن داکٹر طاہر القادری کے جو بھی اہداف ہیں وہ ایک تفریحی دورے میں پورے نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے انہیں پاکستان میں مستقل رہنا پڑے گا۔ تفریحی دوروں کے دوران انہیں جتنی کامیابی مل جاتی ہے وہ بھی بہت ہے۔ انہیں اس پر بھی خوش رہنا چاہئے۔