علم کا پہاڑ۔۔۔ انکسار کا پیکر
لوگوں نے کسی پہاڑ کو،لوگوں کے ہاتھوں پر رواں نہیں دیکھا ہوگا،مگر مَیں نے آج، ایک پہاڑ کو روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں پر، سفر کرتے دیکھا ہے۔ مَیں نے اوروں کی طرح خود بھی اُس کے جنازے کو کندھا دیا ہے،وہ پہاڑ،ایک نحیف و منحنی سے شخص کی صورت میں تھا، دیکھنے کو ایک دبلا پتلا، کمزور سا شخص، مگر اپنی ذات و صفات میں پہاڑوں سے بلند قدو قامت کا مالک۔۔۔ بلامبالغہ اور حقیقتاً،علم کا پہاڑ، عمل و کردار کا پیکرِ عظیم عجزو انکسار کا حقیقی مظہر، بے غرضی وبے لوثی سے مجسم وہ رجلِ عظیم کہ جس کو دُنیا ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ (اور اب ہمیشہ یاد کرتی رہے گی)
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے نوے سال کی ایک لمبی زندگی بسر کی ہے،مگر زندگی ، مسلسل ’’ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلّی‘‘کی مصداق رہی ہے، آخردم تک، ان کا تعلق قلم و قرطاس سے قائم رہا۔ ان کے عزیز اور احباب،ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے اُنہیں آرام کی تلقین و اصرار کرتے رہے،مگر وہ پارہ صفت تھے اور زندگی کے ہر لمحہ سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے رہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ ایک نوے سالہ بوڑھے کا وجود،جوانوں سے زیادہ متحرک اور دماغ، کم سنوں سے بڑھ کر قوتِ حافظہ سے لبریز و معمور تھا۔۔۔وہ کثیرالتصانیف بھی تھے، کثیر المجالس بھی،عام طور پر لکھنے والے مردم بیزار ہوتے ہے، تنہائی کو اپنے کام میں ممدو معاون جانتے اور لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرتے ہیں،مگر حضرت بھٹی صاحب ایک مجلسی آدمی تھے،یار باش،دوستی پالنے اور دوستی سنبھالنے والے،کوئی ان کو ملنے جاتا تو بانہیں اور دِل کھول کر ملتے،کسی کو اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے دیتے،ہر ایک کی ذہنی سطح تک آ کر ملتے کہ زندگی بھر کے لئے اپنا نقش چھوڑ جاتے،ملنے والا خود اجازت چاہ کر اٹھتا،دِل کھول کر باتیں کرنے والے اور پوری طرح متوجہ ہوکر سننے والے،بھٹی صاحب لکھتے بھی بہت زیادہ تھے۔ اتنا لکھتے تھے کہ کتاب پر کتاب شائع ہوتی چلی جاتی تھی۔اُن کو ملنے والے حیران ہوتے تھے، ’’یہ مجلسی آدمی لکھتا کس وقت ہو گا،کہ اس کمال کا لکھ گیا۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے تفسیرو حدیث، فقہ و سیرت، تاریخ و ادب پر بھی خوب لکھا مگر ان کو جو شہرت، ودام ملی وہ ان کو ’’خاکہ نویسی‘‘ کے حوالے سے ملی ہے،گویا وہ اِس فن کے ’’امام‘‘تھے شخصیات پر انہوں نے جتنا زیادہ لکھا اور جس قدر لکھا۔ برصغیر کی تاریخ میں کسی اور نے کہاں لکھا ہوگا،ان کے کام کی کثرت و ندرت کے باعث ہی تو انہیں کویت کی عرب علمی شخصیات نے ’’ذہب دوراں‘‘ کے لقب کے ساتھ اعزازات سے نوازا تھا۔
وہ شخصیات پر لکھتے تو اس طرح لکھتے کہ پڑھنے والا یوں سمجھتا وہ تحریر نہیں پڑ رہا کوئی فلم دیکھ رہا ہے، وہ جزئیات تک لکھ جاتے۔اللہ کریم نے انہیں حافظہ بھی بلا کا عطا فرمایا تھا،عرصہ دراز گزرنے کے باوجود،جس پر لکھتے یوں کہ جس طرح وہ سامنے حرکت کر رہا ہو۔ مَیں نے ’’پیغام‘‘ ٹی وی کے لئے، ان سے18گھنٹے پر مشتمل طویل انٹرویو کیا،عنوان تھا ’’ گاہے گاہے باز خواں‘‘۔ کوئی طے شدہ سوالات نہیں تھے، بس سیٹ پر بیٹھے اور رواں ہو گئے۔مَیں سوال کرتا اور فوراً جواب میں تاریخ انڈیلنے لگتے اور اس روانی اور سلاست سے کہ ہم پر ’’کوئی حیرانی سی حیرانی ہے‘‘ والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ اپنے ایک سفر دہلی کی بات کر رہے تھے کہ مَیں نے بات کاٹ کر پوچھ لیا آپ کی مولانا شرف الدین دہلویؒ سے بھی ملاقات ہوئی؟ وہ ایک لمحہ ہچکچائے بغیر، ترنت فرمانے لگے۔
’’ہاں!1942ء کی بات ہے، بدھ کا دن تھا، فلاں مہینے کی فلاں تاریخ،ہم ان کو ملے تو وہ گلاس میں دودھ ڈال کر اس میں روٹی کے لقمے توڑ کر ، بھگو بھگو کر کھا رہے تھے، پھر ہمارے لئے بھی منگوایا اور ہمیں بھی اپنے طعام میں شریک کر لیا۔۔۔۔۔۔کسی واقعہ کو پون صدی گزرنے کے باوجود سنِ تاریخ، دن کے ساتھ ساتھ تمام جزئیات اور پوری باریکیوں کے ساتھ یاد رکھنا اور پھر لکھنا انہی کا کمال تھا۔
بھٹی صاحب عجزو و انکسار کا حقیقی پیکر تھے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت ہونے کے باوجود، کبرو نخوت، ذرا سی بھی نہ تھی، کسی بھی ملنے والے پر اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے تھے نہ اُسے احساس ہونے دیتے کہ وہ کتنی بڑی شخصیت کے سامنے ہے۔ ان کی بود و باش عام سی اور بڑی سادہ تھی،مَیں نے انہیں بارہا، فٹ پاتھ پر پڑی کتابوں کے پاس بیٹھے اور کتابیں چنتے دیکھا ہے۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مَیں نے ’’ اسلام اور جمہوریت‘‘کتاب لکھی تو اس کا مقدمہ مولانا بھٹی صاحب نے لکھا، پھر16دسمبر 1999ء کے روز پریس کلب میں کتاب کی تقریب پذیرائی، نوابزاد نصر اللہ خان مرحوم کی صدارت میں ہوئی،بھٹی صاحب بھی تشریف فرما تھے، ہم زور لگا لگا کر رہ گئے، مگر مولانا اسٹیج پر تشریف فرما نہ ہوئے، حالانکہ وہاں جو بھی بڑے بڑے تھے مائیک پر آ آ کر بھٹی صاحب سے خوشہ چینی کا اعتراف کر رہے تھے۔۔۔۔
وہ حقیقتاً بے غرض تھے،ساری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، وہ اپنی کتابوں سے کئی ناشرین کے خزانے بھر گئے ہوں گے مگر ان کا اپنا گھر، ایک چھوٹی سی گلی میں، چھوٹا سا ہی رہا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنا نام، اپنے کام کے بل بوتے پر پیدا کیا، وہ نام کے لئے کام نہیں کرتے تھے، وہ تو شخصیات سے محبت کرتے تھے، اخلاص سے ان کو گمنامی سے نکال کر نمایاں کرتے تھے، ان کے اخلاص اور دل سے لکھنے کے وصف کے باعث، قدرت نے ان کو آسمانِ علم و معرفت کا تابندہ ستارا بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کتنے ہی گمنام لوگ تھے، جن کو بھٹی صاحب کے قلم نے تابندگی و درخشندگی عطا کر دی ہے۔
ہمارے محترم ضیاء اللہ کھوکھر، جو پیپلزپارٹی کے ادوار میں اعلیٰ ایوانوں میں راہ رکھتے تھے، وہ بھی بھٹی صاحب کے مداح ہیں، زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں مجھے کہنے لگے ’’خواہش ہے بھٹی صاحب کو صدارتی ایوارڈ مل جائے‘‘۔ چنانچہ مَیں نے اس غرض سے روز نامہ ’’پاکستان‘‘ کے میگزین ’’زندگی‘‘ میں بھٹی صاحب کی تصنیفات و تالیفات پر ایک مفصل مضمون لکھا جو ٹائٹل اسٹوری کے طور پر شائع ہوا، (شاید اب پھر قندِ مکررکے طور پر شائع ہو جائے) اس سے ان کی علمی حیثیت کا ایک اندازا کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود بھی(کسر نفسی کے ساتھ) اپنی سوانح عمری، آب بیتی کے طور پر ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے لکھ چکے ہیں۔
ہمارے ادارے سے ان کا ایک تعلق تھا، ہمارے ادارے کے کئی لوگ بھی ان پر مضمون و کالم لکھ چکے ہیں وہ خود بھی فرمایا کرتے تھے:’’ خاکہ نویسی‘‘ کی طرف مجھے مجیب الرحمن شامی صاحب نے دھکیلا تھا، اور ابتدائی طور پر مَیں نے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں (شخصیات پر) لکھا تھا۔مَیں اگرچہ ایک بہت چھوٹا آدمی ہوں، پھر بھی میرے لئے بھٹی صاحب ایک بزرگ، ایک مربی اور ایک بے تکلف دوست کی طرح تھے۔ وہ تو ہر ایک کے لئے دل کے دریچے کھولے رکھتے تھے، وہ اتنے بڑے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والا کوئی اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھتا تھا،مَیں نے تو ان کے ساتھ بعض طویل سفر کرنے کی سعادت بھی حاصل کر رکھی ہے۔۔۔ کہتے ہیں ناں! کہ ’’راہ پیا جانے یا وا پیا جانے‘‘۔ مَیں نے تو سفر کی تنہائی میں بھی اور معاملات کی یکتائی میں بھی،انہیں ہر حال میں، مخلص،درد مند اور بے غرض ہی پایا ہے۔ ان کے دل میں ہر ایک کے لئے خیر ہی خیر تھی۔ خیر نہ ہوتی تو آج کے کینہ و نفرت کے دور میں جبکہ کوئی کسی کے لئے ایک کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں ہوتا، وہ دوسروں پر، اتنا زیادہ اور دھرا دھر کیوں لکھتے چلے جاتے۔۔۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ تحریک آزادی کے سپاہی بھی تھے اور جیل یاترا بھی کر چکے تھے، بھارت کے آں جہانی صدر گیانی ذیل سنگھ، جب ریاستوں کی پرجا منڈل کے پردھان تھے تو مولانا اسحاق بھٹی سیکرٹری تھے اور ہندی ریاستوں میں انگریز مخالف سیاست کی پاداش میں قید و جبر برداشت کر چکے تھے۔ (گیانی ذیل سنگھ جب بھارتی صدر بنے تو اپنے اس دوست اور ساتھی کو بھارت یاترا کی دعوت دی، مگر مولانا کی درویشی اور بے لوثی آڑے آ گئی، آخر عمر میں ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی شہر ’’فرید کوٹ‘‘ کو دیکھ آئیں، مولانا عبدالوہاب خلجی نے بہت کوشش کی، مگر بھارتی سفارتخانہ نے 86سال کے بوڑھے کو ویزا دینے سے انکار کر دیا)۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شخصیت پر تنا لکھا جائے کم ہے، مَیں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں،مگر دل کی عجیب کیفیت ہے، روح پر غم چھایا ہوا ہے، کچھ سوجھ نہیں رہا، کیا لکھوں، کس طرح اور کس رُخ سے لکھوں؟۔۔۔ وہ تو ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے، مصنف کتبِ کثیرہ، علم کے سمندر کے چھناور، کتب بینی اور انسان شناسی میں بہت آگے کی دُنیا کے باسی تھے، عظمتوں کی رفعت پر فائز اور دِلوں کی گہرائیوں میں عقیدت کے حامل۔۔۔ مَیں ان کے بارے میں لکھوں بھی، تو کیا لکھ پاؤں۔۔۔ مَیں صرف، دو آنسوؤں سے طوفان برپا کرنا چاہتا ہوں، تو بس یہی کہ
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
بہتے رون گے دِلاں دے جانی
تے ماپے تینوں گھٹ رون گے