افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، نیٹو کو بڑی کارروائی کرنا پڑے گی
تجزیہ: آفتاب احمد خان:
افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیوں کے پیش نظر نیٹو فوجیوں کو حساس مقامات پر تعینات کیا جا رہا ہے، ان فوجیوں کے بارے میں طے کیا گیا تھا کہ وہ جنگی کارروائیاں نہیں کریں گے بلکہ افغان فورسز کیلئے تربیت اور مشاورت کی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے۔ اب برطانوی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں موجود ساڑھے چار سو برطانوی فوجیوں میں سے کچھ کو صوبہ ہلمند بھیجا گیا ہے جہاں کے ایک اہم ضلع سنگین پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اور افغان فورسز ان کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ برطانوی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانوی فوجیوں کو مشاورتی کردار کیلئے ہلمند بھیجا گیا ہے مگر سمجھا یہی جا رہا ہے کہ وہ اس افغان صوبے کو طالبان سے بچانے کیلئے عملی کردار ادا کریں گے کیونکہ وہاں اس وقت شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ضلع سنگین میں بیشتر سرکاری عمارتوں پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے اور افغان حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنگجو پورے صوبہ ہلمند پر قابض ہو جائیں گے۔
ہلمند پر پہلے بھی طالبان کا قبضہ رہا ہے اور اسے ان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ گزشتہ سال بیشتر نیٹو افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد سے عسکریت پسندوں میں رفتہ رفتہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ پیر کے روز باگرام کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار دہشت گرد کے حملے میں چھ امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں لڑائی کا ختم ہونا ابھی بہت دور کی بات ہے۔ اب صدر بارک اوبامہ کی اس پالیسی پر بھی نکتہ چینی ہونے لگی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ کی ذمہ داری اب افغان فورسز کو نبھانی چاہئے۔ سچی بات یہ ہے کہ افغان فورسز محض برائے نام فوجی طاقت ہیں انہیں باقاعدہ فوج کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی وہ صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
افغانستان میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے حوالے سے نیٹو کی پالیسی ہے کہ وہ مرنے والوں کے بارے میں یہ نہیں بتاتے کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے تاہم پیر کے روز دہشت گرد حملے میں چھ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع اشٹون کارٹر نے اس واقعہ کو ان خطرات کی تکلیف دہ یاد دہانی قرار دیا جو افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو ہر روز درپیش آتے ہیں۔ 2001ء میں افغانستان آنے والے بیشتر امریکی فوجی وطن واپس جاچکے ہیں جس کے بعد حالیہ مہینوں میں دہشت گرد گروپوں نے جس تسلسل کے ساتھ حساس مقامات پر حملے کئے ہیں اور کبھی کسی اور کبھی کسی علاقے پر قبضہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکومت حالات پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، ایسے میں ہوسکتا ہے نیٹو کو افغانستان میں مزید فوج بھیجنا پڑ جائے۔
چھ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کو اٹھارہ ماہ میں سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں نو ہزار آٹھ سو امریکی فوجی تعینات ہیں جن میں سے بیشتر کابل سے تیس میل دور باگرام بیس پر مقیم ہیں، ہیں پر چھ کی ہلاکت ہوئی جو افغان فورسز کے ساتھ گشت پر تھے۔ اس سے اس بات کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ امریکی اور دیگر نیٹو فوجی صرف تربیت و مشاورت کی غرض سے افغانستان میں موجود ہیں، درحقیقت وہ عسکریت پسندوں کی زد میں ہیں اور انہیں کسی وقت جوابی کارروائیاں کرنے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔