فاٹا اصلاحات اور قبائلی عوام

فاٹا اصلاحات اور قبائلی عوام
 فاٹا اصلاحات اور قبائلی عوام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم محمد نواز شریف نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا میں اصلاحا ت کے بارے میں کمیٹی قائم کی تھی ۔کمیٹی نے مختلف قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کر کے فاٹا کے مستقبل کے بارے میں رپور ٹ تیار کر کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو پیش کی ۔فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کو قبائلی ایجنسیوں کے دورے کے موقع پر عوام کے سامنے فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنے یا فاٹا کو الگ حصہ دینے کی تجویز رکھنی چاہیے تھی تاکہ قبائل اپنی رائے دیتے کہ وہصوبے میں ضم ہونا چاہتے ہیں یا الگ حیثیت ملنے کے حامی ہیں ۔فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے ہر ایک ایجنسی کے دورے کے موقع پر تین سو سے لے کر پانچ سو لوگوں کے ساتھ مشاورت کی تھی ۔چار پانچ ہزار لوگوں کی رائے کو پچاس لاکھ قبائل پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔کمیٹی کے سامنے قبائلیوں نے ایف سی آرکے قانون کے خاتمے کی حمایت کی تھی ۔کمیٹی نے بڑی عجلت میں اپنی رپوٹ تیار کی جس میں رائے دی گئی کہ فاٹا کو الگ حیثیت یا کونسل نہیں دی جاسکتی ۔ فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے، لیکن قبائل کی اکثریت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔جب 1998ء میں اس وقت فاٹا مہمند ایجنسی کے پچیس دیہات کو خیبرپختونخوا میں شامل کیاگیا تھا، قبائلیوں نے صوبے میں ضم کرنے کے خلاف تحریک چلائی تھی۔


فاٹا کا سالانہ بجٹ 18 ارب روپے ہے جبکہ فاٹا کو الگ حیثیت دینے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت فاٹا کو ہر سال 90 ارب روپے ملیں گے جو قبائلی علاقوں کے انفراسٹرکچر کی بحالی،تعلیم ،صحت اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے ایک خطیر رقم ہو گی ۔فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے فاٹا کونسل کی بھی مخالفت کی ۔گلگت بلتستان کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں پر پہلے سیاسی آزادی دی گئی اور لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہو گیا، اس کے بعد گلگت بلتستا ن کو قانون ساز کونسل دی گئی ۔قانون ساز کونسل نے تقریباً پندرہ سال بعد گلگت بلتستان کے عوام کی رائے کے مطابق الگ صوبہ بنا نے کا فیصلہ کیا اور وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا ۔قبائل بھی حکومت سے یہی سوال کرتے ہیں کہ دس لاکھ آبادی پر مشتمل گلگت بلتستان صوبہ بن سکتا ہے تو پچا س لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل فاٹا الگ صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟اگر فاٹا اصلاحاتی کمیٹی فاٹا کو کونسل دینے کی تجویز دیتی تو قبائلی عوام کے لئے یہ فیصلہ قابل قبول ہوتا ۔قبائلی عوام کو 2011ء میں سیاسی آزادی دی گئی ۔قبائلیوں میں سیاسی شعور نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنے لئے مستقبل کے فیصلے کریں ۔فاٹا کونسل کے بعد قبائلی علاقوں میں سیاسی شعور بیدار ہوتا اور گلگت بلتستان کی طرح قبائل بھی اپنے لئے مستقبل کے فیصلے خود کرتے ۔


ایف سی آر کالا قانون ہے، اس نظام کے ہوتے ہوئے قبائل کو انصاف فراہم نہیں ہو سکتا ۔ایف سی آر کے تحت گریڈ اٹھارہ کے پولیٹکل ایجنٹ کے پاس عدالتی ،انتظامی اور مالیاتی اختیارات ہوتے ہیں ۔فاٹا میں ایف سی آر کا غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔ایک فرد کے پاس زیادہ اختیارات ہونے کی وجہ سے و ہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے ۔فاٹا میں پولیٹکل ایجنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہونے چاہئیں اور ہر ایک ایجنسی میں جج تعینات ہونا چاہیے، ا س اقدام سے قبائلیوں کو انصاف ملے گا ۔فاٹا کے مستقبل کے لئے قبائلی عوام سے رائے معلوم کرنے کے لئے جمعیت علمائے اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں قبائل امن کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مختلف قبائلی ایجنسیوں سے ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔فاٹا کے پارلیمنٹرینز نے بھی شرکت کی ۔کانفرنس میں قبائلیوں کی اکثریت نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے فیصلے کو مسترد کیا اور فاٹا کو الگ حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ۔مقررین نے کہا کہ فاٹا کے مستقبل کے فیصلے بند کمروں میں نہ کئے جائیں، اس کے بارے میں بہترین آپشن ریفرنڈم ہے ۔فاٹا کے پارلیمنٹرینز نے بھی فاٹا کو صوبے میں ضمکرنے کی مخالفت کی ۔


فاٹا کی اصلاحات کے بار ے میں گورنرخیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کا حق بنتا تھا ۔فاٹا اصلاحات میں گورنر کا اہم رول بنتا تھا، کیونکہ گورنر فاٹا کے چیف ایگزیکٹوہیں ۔قبائلیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گورنر نے قبائلی عوام کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا ۔فاٹا کے مستقبل کے بارے میں اتنے بڑے فیصلے کرنے میں قبائلیوں کے ساتھ وہ مشاورت نہیں کی گئی جو کرنی چاہیے تھی۔فاٹا کے مستقبل کے فیصلے کرنے میں وفاقی حکومت کو عجلت میں فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ قبائل کی اکثریت فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ کے حق میں نہیں ۔وزیراعظم محمد نواز شریف کو قبائلیوں کے مستقبل کے فیصلے بڑی سوچ بچار کے ساتھ کرنے چاہئیں ۔فاٹا میں رہنے والے لوگوں سے ان کے مستقبل کے بارے میں رائے ضرور معلوم کرنی چاہیے، جلد بازی سے کئے گئے فیصلے سے قبائلی عوام مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے ۔قبائل گزشتہ بارہ سال سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔فاٹا میں انفراسٹرکچر اور قبائلیوں کے گھر تباہ ہو چکے ہیں، لاکھوں متاثرین کی باعز ت اپنے گھروں کو واپسی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں ۔فاٹا کی تعمیر نو اور ترقیاتی کام سست روی کے شکارہیں، جس سے قبائلیوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔وزیراعظم محمد نواز شریف کو فاٹا پر خصوصی توجہ دینا چاہیے ۔سی پیک کے فوائد فاٹا تک پہنچنے چاہئیں، جب تک فاٹا میں امن قائم نہیں ہو گا، ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا، فاٹا بھی ملک کا حصہ ہے اور قبائل محب وطن پاکستانی ہیں ۔

مزید :

کالم -