قائد اعظمؒ اور نظریۂ پاکستان
تحریک پاکستان کی تاریخ اور قیام پاکستان کے لئے قائد اعظمؒ کی جدوجہد کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو نظریۂ پاکستان کی جھلکیاں آپ کو جگہ جگہ دکھائی دیں گی۔ ہم اگر آج پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو اس کی بنیاد قائد اعظمؒ کے ایک سو سے بھی زیادہ ارشادات ہیں۔ ایسی ہی ایک شہادت لاہور سے شائع ہونے والے مشہور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ میں بھی موجود ہے۔ یہ 10جولائی 1947ء کا شمارہ ہے، جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے صوبہ سرحد کے دو بھائیوں، سرحدی گاندھی عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر خان صاحب کے پٹھانستان کے مطالبے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سرحد کے مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح کی تھی کہ وہ پہلے مسلمان ہیں، پھر پٹھان۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ کی خبر کے اس شرمناک پروپیگنڈے کی بھی تردید کی کہ پاکستان کا مرتب کردہ دستور شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ اس خبر کا پس منظر یہ تھا کہ خان عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر خاں صاحب دونوں کانگرسی سیاست دان، انڈیا کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے سخت مخالف تھے، لیکن جب متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی بے مثال جدوجہد کے بعد پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا تو غفار خاں وغیرہ نے صوبہ سرحد کے پٹھانوں کے لئے ایک آزاد وطن پٹھانستان کا مطالبہ کردیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ پٹھانوں کی اس الگ ریاست کا دستور اسلامی نظریات کی بنیاد پر مرتب کیا جائے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ اسلامی نظریات کی بات صوبہ سرحد کی کانگرس کے وہ رہنما کررہے تھے جو مسلم قومیت، یعنی اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کی شدید مخالفت کررہے تھے۔ قائد اعظمؒ نے بھی یہ سوال اٹھایا کہ وہ سیاست دان جو گاندھی کے پیروکار تھے اور کانگرس کے پلیٹ فارم سے متحدہ ہندوستان کے علمبردار تھے اور جن کا یہ نقطۂ نظر تھا کہ مسلمانوں کی کوئی الگ قومیت نہیں ہے اور یہ کہ مذہب کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے، اب وہ راتوں رات اسلامی شریعت کے ٹھیکیدار کیسے بن گئے ہیں؟
قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ مجوزہ آزاد پٹھانستان کا دستور اسلامی تصورات کی اساس پر بنانے کا اعلان کر کے عوام کو یہ دھوکہ دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے ضامن اسلامی نظریات کو نظر انداز کردے گی۔ قائد اعظمؒ نے خان عبدالغفار خاں اور ان کے ساتھیوں کے اس پروپیگنڈے کو شرمناک حد تک غلط اور فراڈ قرار دیا، جس کے ذریعے یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت اور قرآنی اصولوں کو فراموش کردے گی۔ قائد اعظمؒ کا استدلال یہ تھا کہ جو سیاست دان ملت اسلامیہ سے غداری کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قوم تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے، وہ تو متحدہ ہندوستان میں 75فیصد ہندوؤں کے ساتھ ایک قوم بن کر رہنے کی بات کرتے تھے۔ وہ یہ وضاحت کریں کہ متحدہ ہندوستان میں غیر مسلموں کی بھاری اکثریت کی موجودگی میں اسلام اور قرآنی تعلیمات کے مطابق کیسے قانون سازی کرسکتے تھے؟قائد اعظمؒ نے کتنی خوبصورت دلیل آسان اور سادہ لفظوں میں بیان کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن اور اسلامی تعلیمات کے مطابق دستور سازی کی بات تو وہ جماعت یعنی مسلم لیگ کرسکتی ہے جس کی ساری جدوجہد متحدہ انڈیا کے بجائے مسلمانوں کے لئے ایک الگ آزاد مملکت کے لئے تھی۔ قائد اعظمؒ کی اس دلیل نے خان برادران کے اس شر انگیز پروپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ جس آزاد پٹھانستان کا وہ مطالبہ کررہے ہیں، وہاں اسلامی شریعت نافذ کی جائے گی۔ اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے خان برادران صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت کی راہ بند کرنا چاہتے تھے، لیکن قائد اعظمؒ نے ان کا یہ فراڈ ناکام بنا دیا۔ سرحد کے غیور مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کایہ نظریاتی پیغام اچھی طرح سمجھ لیا کہ جس پاکستان میں مسلمانوں کو عظیم اکثریت حاصل ہوگی اور جو ملک حاصل ہی مسلم قومیت کی بنیاد پر کیا جارہا ہے، وہاں دستور ساز اسمبلی اسلام اور قرآن کے احکامات کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے؟ سرحد کے غیور مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کی اپیل پر ریفرنڈم میں بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور کانگرس سے وابستہ پشتون سیاست دانوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں۔
تحریک پاکستان کی بنیاد اور قائد اعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو سمجھنے کے لئے یہاں قائد اعظمؒ کی جون 1938ء کی ایک تقریر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔یہ اس دور کی تقریر ہے جس کے دو سال بعد قرار داد لاہور منظور ہوئی تھی اور ابھی مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کی الگ آزاد ریاست کے لئے پاکستان کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی قائد اعظمؒ کی سوچ بڑی واضح تھی کہ مسلمانوں کو کوئی نیا پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ مسلمانوں کے پاس تیرہ سو سال سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قائد اعظمؒ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ قرآن کریم میں ہماری اقتصادی ، تمدنی اور معاشرتی اِصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ قائد اعظمؒ نے یہ بھی فرمایا کہ میں کلامِ الہٰی کے احکامات کی تعمیل میں ہی آزادی کا طلب گار ہوں،کیونکہ قرآن پاک ہمیں آزادی، مساوات اور اخوت کا حکم دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قائد اعظمؒ نے یہ فرمایا کہ آزادی کا مطالبہ ہمارے لئے ایک سیاست کا مسئلہ نہیں،بلکہ ہمارا دین ہمیں آزادی کے حصول کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ تعلیمات قرآنی ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارا ملک آزاد اور خود مختار ہو۔ یہاں 22اکتوبر 1939ء کے اخبار ’’ انقلاب‘‘ میں قائد اعظمؒ کے شائع ہونے والے ایک بیان کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ قائد اعظمؒ کا ارشاد تھا کہ ’’ میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اعتماد لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا خدا یہ کہے کہبے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے کے مقابلے میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے‘‘۔
قائد اعظمؒ کے ا س ارشاد، عزم اور ارادے کے ٹھیک 5ماہ بعد قرار داد لاہور منظور ہو گئی، جس میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کیلئے جداگانہ اور آزاد مسلم مملکت کا مطالبہ پیش کردیا گیا۔ قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کی آزادی کیلئے اسلام کا جھنڈا بلند کردیا۔ پاکستان کا مطالبہ دراصل کفر کے غلبے سے مسلمانوں کو آزادی دلانے کا مطالبہ تھا۔جب قائد اعظمؒ اپنی بصیرت اور طویل جدوجہد کے ذریعے مسلمانوں کی تنظیم سازی کے بعد ان کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کی آزادی اورسر بلندی کی خاطر ان کیلئے آزاد اور الگ ملک کا مطالبہ پیش کردیا۔ قائد اعظمؒ اسلامی نظریے کی بنیاد پر پاکستان حاصل کرنے میں سرخرو ٹھہرے اور ہمارا یقین ہے کہ جب قائد اعظمؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یقیناً ان کی وہ واحد تمنا پوری ہوگئی ہوگی،جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ یہ یقین اور اعتماد لے کر مرنا چاہتے ہیں کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ پاکستان کا بچہ بچہ یہ گواہی دے گا کہ قائد اعظمؒ نے حقیقت میں مسلمانوں کی تنظیم، آزادی اور مدافعت کا حق ادا کر دیا تھا اور اسلام کی حفاظت کیلئے پاکستان جیسے مضبوط قلعے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ قائد اعظمؒ جس نصب العین کو لے کر اٹھے تھے، وہ انہوں نے پورا کردکھایا، مگر اسلام جس مساوات، اخوت اور معاشرتی انصاف کا علمبردار ہے اور پاکستان کو جو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بننا تھا، وہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں پورا کرنا ہوں گی۔۔۔ اوریہ میں اپنی جانب سے نہیں کہہ رہا، بلکہ قائد اعظمؒ کے الفاظ میں ان کا تصور پاکستان کچھ یوں تھا: ’’ جس پاکستان کے لئے ہم گزشتہ 10سال سے جدوجہد کررہے تھے، وہ اللہ کے فضل سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے، لیکن صرف اپنے لئے ایک مملکت قائم کرنا ہی ہمارا مقصود نہیں ، بلکہ یہ ایک ذریعہ تھا حصولِ مقصد کا۔۔۔دراصل ہم ایک ایسی مملکت چاہتے تھے، جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کرسکیں اور جہاں ہم اسلام کے عدل ومساوات کے اصولوں کو آزادی سے بروئے کار لا سکیں‘‘۔