نماز ۔۔۔ تحفۂ خداوندی
حکیم طارق محمود ثاقب
آپ ؐ کی اُمت میں سے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہوں کی بخشش، جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا۔
حضرات غور فرمائیں! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر چیز کا حکم زمین پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا لیکن نماز ایک ایسا اہم فریضہ اور عظیم الشان تحفہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ زمین پر نہیں،بلکہ پیغمبر خیرالوریٰ کو آسمانوں کی بلندیوں پر بلا کر عطا فرمایا۔ اس واقعہ سے نماز کی اہمیت و عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ دین اسلام کے پانچ اراکین میں سے نماز ایک اہم رکن ہے، نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا۔ نماز مومن بندے اور کافر میں تمیز کرنے والی کسوٹی ہے، نماز سے دلوں کو سکون و قرار حاصل ہوتا ہے، نماز قرب الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ قیامت کے دن سب سے پہلا پرچہ اور لازمی سوال نماز کا ہوگا، اس پیپر میں کامیاب تمام امتحانی پرچوں میں کامیاب قرار پائے گا، اس میں ناکامی پر عذاب الٰہی کا موجب بنے گا۔
آپؐ جب واپس آتے ہوئے جناب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے پاس سے گزرنے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا حکم دیا ہے؟ آپؐ نے کہا اللہ تعالیٰ نے میری امت پر ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ کی امت ہر دن رات میں پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی لہٰذا رب تعالیٰ کے پاس جاؤ اور تخفیف کرا لو، کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور اس تجربہ کی روشنی میں کہتا ہوں کہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ نبیؐ فرماتے ہیں کہ میں دوبارہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس گیا اور اللہ تعالیٰ سے نمازیں کم کرنے کی درخواست کی تو رب العالمین نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزر ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ بھی زیادہ ہیں اور کم کرا لو، رسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ میں بار بار تخفیف کی گزارش کرتا رہا، آخر کار اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپؐ کی امت پانچ نمازیں پڑھا کرے تو میں اَجر دس کا دوں گا اور ایک نیکی کا اجر ہمارے ہاں دس گنا ہے۔ آپؐ کی امت پانچ نمازیں پڑھے گی ان کے اعمال نامہ میں پچاس درج کی جائیں گی۔ یعنی پچاس نمازوں کا اجر و ثواب ملے گا۔
پڑھنے میں پانچ اور ثواب کے لحاظ سے پچاس، نبی رحمتؐ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: جو نیکی کا ارادہ کرے گا اس کے لئے نیکی کرنے سے پہلے ہی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ سبحان اللہ، غور فرمائیں کہ پانچ نمازوں کا اجر پچاس کا پائیں، آج کتنے لوگ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں؟ اگر میں یوں کہوں تو بجا ہوگا کہ پانچ فیصد مسلمان نمازی ہیں لیکن ہم معراج بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں، کھانے اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کے پکتے ہیں، جلوس نکالے جاتے ہیں، مسجدوں، مزاروں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ کوئی روزہ رکھتا ہے تو کوئی رات کا قیام کرتا نظر آتا ہے حالانکہ شریعت محمدیہؐ میں ان رسومات کا کوئی ثبوت نہیں۔ معراج کی اصل روح (نماز) سے ہم غافل ہیں جس چیز کا ثبوت نہیں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی پروا نہیں۔ نماز من جانب اللہ تحفہ ہے اس کی قدر کریں۔ غور فرمائیں کہ ہمارا کوئی عزیز، رشتہ دار ہمارے گھر تحفہ لے کر آجائے اور ہم اسے قبول نہ کریں یا قدر نہ کریں تو وہ ہمارے ساتھ تو تعلقات ختم کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیا رب العالمین کا ہم پر اتنا بھی حق نہیں کہ ہم نمازیں پڑھ کر اس کے تحفے کو قبول کریں۔
* عمداً نماز چھوڑنا کفر ہے۔ (جامع الترمذی: 2621)
* جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی اس کا گھر اور مال تباہ و برباد ہوگیا۔ (صحیح بخاری: 552، مسلم: 1417)
* جو پانچ نمازوں کی حفاظت نہیں کرتا وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (مسند احمد رقم، ص: 634)
* مسلمان بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔ (صحیح مسلم، ص:82، مسند احمد، ج، 3ص:370)
ان احادیث کی روشنی میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ نماز چھوڑنا کتنا بڑا سنگین جرم ہے۔
نماز کا چھوڑنا اللہ کے تحفے کی ناقدری اور قبول نہ کرنے کے مترادف ہے۔ نماز چھوڑنا اللہ اور اسکے رسولﷺ کے حکم کا انکار ہے۔ میرے خیال میں جہاں عوام نماز چھوڑنے میں مجرم ہیں وہاں حکمران بھی پیچھے نہیں۔
تارک نماز کا کوئی بھی عمل اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں، نہ حج، نہ قربانی، نہ روزے، نہ صدقہ و خیرات۔ آئیے! ہم سب عہد کریں کہ تحفۂ خداوندی۔۔۔ نماز کی ہرحال میں پابندی کریں گے۔ ان شاء اللہ