زرداری آج کراچی پہنچیں گے، مفاہمت ساتھ لا رہے ہیں
تجزیہ:چودھری خادم حسین
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی مالیات میں مہارت کے دعویدار اور اپنی تعریف سے خوش ہوتے ہیں وہ جب بھی بات کریں زرمبادلہ کے ذخائر پر فخر کرتے ہیں لیکن کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ یہ ذخائر کس قیمت پر اتنے بڑھے ہیں، اسحق ڈار اور موجودہ حکومت بہت یقین کے ساتھ نجی شعبے کی قائل ہے اور موقف یہ ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار نہیں، چنانچہ ان کے نزدیک سٹیل ملز، پی،آئی،اے اور ریلوے تک نجی شعبہ کے پاس ہونا چاہیے اور اس کے لئے کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ معاملہ تاحال ٹلتا چلا جارہا ہے لیکن پالیسی ابھی تک یہی ہے، اگرچہ تاخیر ہو رہی ہے اس سلسلے میں مختلف دوسرے شعبوں پر بھی نظر ہے کہ اب اچانک سی،این،جی کے شعبہ کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا اور پمپ مالکان کو نرخ مقرر کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے جو سب سرمایہ دار ہیں اور وہ اس کام میں بھی زیادہ سے زیادہ منافع کو پیش نظر رکھیں گے اگرچہ شاہد خاقان عباسی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس اقدام سے گیس سستی ہوگی۔
نجکاری کے حوالے سے تو پیپلز پارٹی بھی نجی اور سرکاری شعبہ کے ساتھ ساتھ چلنے کی قائل ہو چکی ہوئی ہے بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران تو نجکاری کی وزارت بھی کام کرتی تھی اور نوید قمر چیئرمین وزیر رہے ہیں، تاہم اب حالات مختلف ہیں، قومی ائیر لائن ،ریلوے اور سٹیل ملز کی نجکاری کسی بھی جماعت کو منظور نہیں اور محاذ آرائی میں یہ تنازعہ بھی شامل ہے، اگرچہ یہ تینوں ادارے بڑے خسارے سے دوچار ہیں اور صرف ریلوے کو بہتر بنانے پر زور دیا جارہا ہے، اور کسی حد تک بہتری بھی نظر آئی،تاہم دوسرے دونوں اداروں کی حالت ابتر ہے، ان کے لئے بھی موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوگیا، اب ایوان والی ہنگامہ آرائی تو ممکن نہیں، تاہم تحریک انصاف جنوری میں عدالت عظمیٰ سے آس لگائے بیٹھی ہے، پیپلز پارٹی کے چیلنج کی تاریخ نزدیک آتی جارہی ہے، آئندہ منگل کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی آرہی ہے اور گڑھی خدا بخش کے میدان میں تعزیتی جلسے سے خطاب کے دوران ہی بلاول بھٹو نے تحریک کا اعلان کرنا ہے، اس جلسہ میں آصف علی زرداری بھی ہوں گے اور خطاب بھی کریں گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری آنے سے پہلے ہی مفاہمتی پالیسی کا آغاز کر چکے انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کو خود فون کرکے اقلیتوں کے حوالے سے سندھ اسمبلی کا منظور کردہ بل واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے یوں واپسی سے مذہبی حلقوں کو خوشگوار تاثر دیا ہے تو سیاست کے میدان میں ایسا کیوں نہ کریں گے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی حکمت عملی چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی قبول کرنا ہے حالانکہ وہ محاذ آرائی کے حق میں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں اور ہمدردوں کو اب آصف علی زرداری کی واپسی کا انتظار ہے کہ وہ آکر پٹاری سے کیا نکالتے ہیں، مفاہمت کا ثبوت تو انہوں نے دے ہی دیا ہے اب عملی اقدام کیا ہوتے ہیں دیکھنا ہوگا، یہاں تو بہت زور سے حزب اختلاف کے وسیع تر اتحاد کی بات کی جارہی ہے اگرچہ تاحال یہ بیانات کی حد تک محدود ہے، یوں بھی بابائے اتحاد نوابزادہ نصراللہ خان نہیں ہیں کہ خاموشی سے اتحاد بنالیں اور پھر اعلان بھی کردیں اس لئے اس اتحاد کے قیام میں بھی وقت لگے گا اگرچہ اعلان بہت کئے جارہے ہیں اب یہ فیصلہ آصف علی زرداری کی آمد کے بعد ہوگا، آصف علی زرداری آج کراچی پہنچیں گے ، یہاں آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ گرینڈ اپوزیشن کے لئے کیا کام ہو چکا اور کیا نہیں ہوا، یہ بھی معلوم ہو جائے گا، یوں بھی زرداری ائیرپورٹ کے قریب ہی جلسے سے خطاب کریں گے، منتظر ہیں کہ کیا کہتے ہیں محاذ آرائی کی فضا نے اندیشے بھی بڑھا دیئے ہیں تاہم حالات حکمرانوں کے حق میں اور فضا بھی بہتر کہ رحیم یار خان میں پیپلز پارٹی بلدیاتی سربراہی کے انتخابات ہار گئی اور مخدوم احمد محمود کو ناکامی ہوئی ہے۔
زرداری آج کراچی